آخری سفر
اسما سلیم
امرتا کے بارے میں خواب۔میں بہت دنوں سے دیکھ رہی تھی اور ایک بھی خواب ایسا نہیں تھاجو دل کے اندیشوں کو دور کر دیتا۔پچھلے دس دنوں میں تو دو بار ایسا ہوا کہ خواب دیکھ کرمیں گھبرا گئی ۔امروزکو فون کیا ۔انہوں نے ہمیشہ کی طرح بشاش لہجے میں کہا کہ سب خیریت ہے تو دل کو ذرا قرار آگیا ۔مگر یہ قرار عارضی تھا....31اکتوبرکو دوپہر تین۔ساڑھے تین کے آس پاس کا وقت تھا۔جب دفتر میں میری میز پر رکھے فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ دوسری طرف فرحت بتا رہے تھے کہ ابھی ابھی امروزکا فون آیا ہے ۔امرتا نہیں رہیں۔صبح گیارہ بجے میری امروز سے بات ہوئی تھی ۔تب تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔اگلے پندرہ منٹ میں امرتا کے گھر پہنچ گئی۔الکا نے دروازہ کھولا۔اوپر جانے کا اشارہ کرکے واپس اندر چلی گئی ۔میں امرتا کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
امرتا بستر پر اسی طرح لیٹی ہوئی ہے۔جیسے ہمیشہ لیٹتی تھی۔مجھے اس کا آدھا چہرہ نظر آرہاہے۔آدھا دائیں جانب مڑا ہوا ہے ۔کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا ۔کہ سانس کا وہ تار جس نے گذشتہ تین برسوں سے اس کا رشتہ حال سے جوڑ رکھا تھا ۔آج ٹوٹ گیا ہے ۔ڈاکٹر سرہانے کھڑی کچھ لکھ رہی ہے ۔اب کون سا نسخہ باقی ہے ۔مجھے خیال آیا۔اتنے میں اس نے اپنا پیڈ سامنے رکھ دیا۔وہ ڈیتھ سرٹیفکٹ تھا ۔اس نے امرتا کے جانے کی تصدیق کر دی تھی۔اس کے مطابق امرتا کا انتقال دو پہر لگ بھگ دو ڈھائی بجے سوتے میں ہوا تھا۔
موت کا سبب اس نے دل کا دورہ لکھا ہے ۔لیکن امرتا تو اتنی کمزور ہو چکی تھی ۔اتنی گھل چکی تھی۔کہ کسی بھی وقت یوں ہی جا سکتی تھی۔اس دوران امیا امرتا کے سرہانے موڑھے پر بیٹھ گئی۔وہ کہہ رہی ہے ۔ ’’اسماادھر آجا!امرتا جی نوں ویکھ لے ۔‘‘میں نے نفی میں گردن ہلا دی ۔میں اپنی یادوں میں اس کی آخری تصویر ایسے نہیں رکھوں گی۔ ۔ ۔ آنسو بہہ نکلے۔امروز کا ہاتھ میرے کندھے پر ہے ۔ڈاکٹر افسوس کے ساتھ کہہ رہی ہے ۔ان کے بہت شدید درد تھا ۔تڑپ کر موت کی آرزو کرنے لگتی تھیںاس حالت میں بھی میں نے کبھی ان کے اخلاق اور وضع داری میں کمی نہیں دیکھی۔آج کیسے چپ چاپ چلی گئیں۔
لمحہ بھر پہلے امروز کمرے سے باہر گئے تھے۔واپس آگئے ۔ان حالات میں بھی وہ اپنا فرض نہیں بھولتے۔ایک سفید لفافہ ڈاکٹر کی طرف بڑھا دیا۔اس کی آنکھوں اور آواز میں نمی اتر آئی۔نہیںآج نہیں!ڈاکٹر کمرے سے باہر نکلی تو الکا مجھ سے لپٹ گئی۔جب سے امرتا بستر سے لگی تھی ۔ امروز کی اور اس کی کتنی راتیں صبح ہوئیںاور کتنی صبحیںشاموں میں بدلیں۔یہ صرف وہی جانتے ہیں ۔کینڈی بھی پہنچ گئی۔اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا ہے ۔آج در حقیقت وہ یتیم ہو گئی ہے ۔وہ شاید ایک سال کی تھی ۔جب یتیم خانے میں اس نے امرتا کا پلو پکڑ لیا تھااور امرتا نے اسے گود لے لیا تھا ۔اس کے بعد امرتا کے یہاں نوراج کا جنم ہوا لیکن وہ گھر کی بڑی بیٹی ہی رہی ۔آج بھی ہے ۔ امرتا یا گھر کے کسی بھی فرد نے اس کے ساتھ کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔
الکامجھ سے کاکا کا موبائل نمبر پوچھ رہی ہے ۔کاکا سدھ یوگی ہیں۔ امرتا کے دل میں ان کے لئے جو پیار اور بھکتی تھی ۔اس کا ذکر بہت جگہوں پر کیا ہے ۔میں نے جیسے ہی ان کو امرتاکے بارے میں بتایا۔انہوں نے فوراً کہا’بچے ۔لے جانے سے پہلے۔ان کے ماتھے پر دونوں ابرو ؤں کے بیچ میں۔مقام قلب پر اور دونوں ہتھیلیوں پر تلک کر دے۔پھر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر تری شتی استوتر کا پاٹھ کردے ۔یہ ضروری ہے ۔ ۔ ۔ میرا دل تڑپ گیا۔یہ کیسی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔میں تو اس کے چہرے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہی کہ مجھے اپنے ذہن میںِہمیشہ اس کی روشن اور جگمگاتی تصویر چاہئے۔اس حالت میں.....
نوراج آخری رسوم کا سامان لے آئے ہیں ۔وہ ڈیڈ باڈی کو لے جانے ولی گاڑی بلانے کے لئے فون کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہماری طرف سے سب تیار ہے ۔آپ ابھی آجائیے۔(کسی کے انتظار میں رکنا تو تھا نہیں )میں نے امن(امرتا کا پوتا)سے تلک کے لئے کہا۔تو وہ سائیں کی دھونی لے آیا کہ دادی تو ہمارا تلک اسی سے کرتی تھیں۔میں ڈبیا لے کر امرتا کے سرہانے جا بیٹھی ۔چادر سرکائی۔پیشانی چمک رہی ہے۔یہ پیشانی جا نے کن کن منظروں کی گواہ ہے ۔اس پر دانشوری کی تینوں لکیریں اسی طرح سیدھی کھنچی ہوئی ہیں ۔بدن رخصت ہو گیا ۔مگر اس کی فکر ۔اس کا علم باقی ہے ۔
دونوں ابروؤں کے بیچ میں تلک کیا۔تو لگا کہ وہ مسکرائی ہے ۔دل بھیگنے لگا۔سکھی!آخری وقت میں قریب رہنے کا وعدہ اسی کے لئے لیا تھا۔ تمہارا سنگھار تو قدرت نے خود نور سے کیا ہے ۔ذرا اٹھ کر دیکھو اور بتاؤ۔کس سے ملاقات کی نشانی تمہارے ماتھے پر روشن ہے اور چہرہ اتنا چمک رہا ہے ۔تم تو بہت درد سہہ رہی تھیں۔اس کا ایک بھی نشان تمہارے چہرے پر کہیں نظر نہیں آرہا۔
ایک ہاتھ سے چادر کا کونا پکڑ کردوسرے ہاتھ سے اس کے دل کے مقام پر تلک کیا ۔کہتے ہیں ۔جس کا یہ چکر کھل جاتا ہے ۔وہ زمان و مکان۔مذہب ۔ذات۔پات ہر امتیاز سے بالا تر ہو جاتا ہے ۔اسی لئے اس کے دل میں ہر ایک کے لئے جگہ تھی۔دکھ چا ہے کسی کا ہو صدیوں کے فاصلے پر بھی۔وہ اسے محسوس کر سکتی تھی۔ڈاکٹروں سے کہتی تھی کہ اگر دل میں یہ درد نہ ہوتا تو شاعری نہ ہوتی ۔کاکا نے دونوں ہتھیلیوں پر بھی تلک کرنے کو کہا تھا ۔ اس کا دایاں ہاتھ سائڈمیں سیدھا رکھا ہے۔ہتھیلی تھوڑی سی کھلی ہوئی ۔بایاں ہاتھ سینے پر ہے ۔ذرا سا اٹھا کر وہاں بھی تلک کر دیا ۔
اس کا سنگھار پورا ہو چکا ۔رخصت کی گھڑی قریب آتی جا رہی ہے ۔اس سے پہلے ہی مجھے پاٹھ کرنے ہیں ۔میں نے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔ ایک دم سرد ہے ۔پا ٹھ شروع کیا ۔خدا جانے کیسی لہریں ہیں کہ میں پوری کی پوری مرتعش ہو اٹھی ہوں ۔میری آنکھیں بند ہیں ۔لگتا ہے آواز میری نہیں کسی اور کی ہے ۔میں اور امرتا چپ چاپ پاٹھ سن رہے ہیں ۔ایک ایسی کیفیت جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں ۔اسے چھونے پر پہلے پہل جو سرد سا احساس ہوا تھا۔وہ اب کہیںنہیں ۔میری سکھی ہمیشہ کی طرح میرے پاس بالکل میرے ساتھ ہے ۔میں آنکھیں کھولنا چاہتی ہوں ۔لیکن آنکھیں نہیں کھل رہیں۔کوئی میرا ہاتھ اس کے ماتھے سے ہٹا دیتا ہے ۔’ اسما یہ دیکھنے آئے ہیں ‘میں آنکھیں کھولتی ہوں ۔آنے والی ان پر نظر ڈال کرواپس جا رہی ہے ۔میں دوبارہ ماتھے پرہاتھ رکھ دیتی ہوں ۔ترنگوں سے بنی ہوئی امرتا پھر میرے پاس آ جاتی ہے (کیا کاکا نے اسی لئے پاٹھ کرنے کو کہا تھا؟)
کتنے سارے منظر میری آنکھوں کے سامنے بچھ گئے ہیں ۔کبھی ساحر کے گھر ’پرچھائیاں ‘ کی نیلامی کو لے کر اداس ہے ۔کبھی افغانستان پر امریکی حملے کو لے کرپریشان ۔وہاں کی گپھائیں تو اس کی سانسوں میں بستی تھیں۔جب میں اس کی نظموں کا ترجمہ کر رہی تھی۔تو نظم ’سنیہڑے ‘پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی تھیں۔اگست 2002 میں امروزکا بخار طول پکڑ گیا تو وہ اپنی تکلیف بھول گئی ۔بار بار کہتی ۔میں امروز کے بنا نہیں رہ سکتی ۔اکثر کہتی مجھے امروز اور تجھے فرحت نہ ملتے تو ہم دونوںکی مکتی نہ ہوتی ۔
ہمیشہ لکھنے کے لئے اصرار کرتی ۔مگر میں سنتی ہی نہیں تھی ۔تب اس نے ایک دن غصے میں کہا جب میں مر جاؤں گی یہ تب لکھے گی ۔(امرتا !ذرا دیکھ۔میں لکھنے لگی ہوں ۔تو پھر بھی چلی گئی)اس کی شاعری پر مضمون لکھا۔اس میں نظم ’ نو سپنے ‘ کی وضاحت پڑھ کر بے حد روئی کہ اس طرح میری شاعری کو کسی نے سمجھا ہی نہیں ۔
اسے لے جانے کے لئے گاڑی آگئی۔سنگھار پورا ہو چکا تھا ۔ سفید گھونگھٹ منہ پر ڈال کر نیچے لایا گیا ۔ارتھی کنارے پر ہے ۔میں اور امروز اس تختے کو بیچ میں لا کر رکھ دیتے ہیں۔اسے لٹا دیا گیا۔گاڑی کے ساتھ جو لوگ آئے تھے ۔ان میں سے کسی نے کہا ۔رسی سے باندھ دو۔اجیت کور نے اس پر فوراً احتجاج کرتے ہوئے کہا۔یہ اتنی نازک ہے ۔رسی کیوں۔ چنری استعمال کر لیتے ہیں ۔شلپا (پوتی ) چنری لے آئی۔اب اس کی تیاری پوری ہو گئی۔ڈولا اٹھنے کا وقت آگیا۔سب کے سب سوگوار۔سب کی آنکھیں نم ۔
یہ سب ہیں بھی کون ۔گھر کے لوگ۔اجیت کور۔ان کی بیٹی اپرنا کور۔ ناگ منی کے پبلشر۔پڑوس میں رہنے والی ایک لڑکی رانی۔امیا اور میں ۔ کسی اخبار سے ایک رپورٹر اور فوٹوگرافر۔کوئی بھیڑ بھاڑ نہیں ۔امرتا کی وصیت تھی کہ اس کی موت پر کسی کو اطلاع نہ دی جائے۔حالانکہ جیسے بھی ہیں سب اس کے چاہنے والے ہی ہیں ۔سب کو افسوس رہے گا کہ شہر میں ہوتے ہوئے بھی اس کے آخری دیدار سے محروم رہے ۔لیکن شور شرابے اور ہنگامے سے اسے کوئی دل چسپی تھی ہی نہیں ۔مجھے 31اکتوبر کو ہو نے والی ایک اور موت یاد آگئی۔جو1984 میں ہوئی تھی۔امرتا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ۔بے حد انوکھی شخصیت کی مالک ۔اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اپنے عہد کو متاثر کیااور عجیب بات یہ کہ دونوں ایک ہی تاریخ کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔
یہ گھر ۔تخلیق کا سدھ پیٹھ!امرتا اور امروز نے مل کر بنایا تھا۔اس کے درودیوار نے کتنی تاریخی شخصیتوںکو دیکھا ہے ۔کتنی یادگار ملاقاتوں کے وہ گواہ ہیں۔کملیشور تو اسے سارے ایشیائی ادیبوں کا ٹھکانہ کہتے ہیں ۔اس گھر سے آج وہ ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی ۔لوگوںکے ساتھ پیڑ پودوں کے بھی سر جھکے ہوئے ہیں ۔یہ سب اس نے خود لگائے تھے ۔خود ا ن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ان سے باتیں کرتی تھی۔جب سے وہ بیمار پڑی ۔پودوں کی ذمہ داری امروز نے سنبھال لی۔اب یہ بھی خاموش اسے آخری بار دیکھ رہے ہیں....
شام کے سائے گہرے ہو چلے ہیں۔دیوالی کی رونق اپنے شباب پر ہے ۔بم دھماکوں سے بھی اس پر کوئی اثر نہیںپڑا۔زندگی اپنی رفتار سے جاری ہے ۔کون آیا ۔کون چلاگیا ۔اس سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے آج نہیں پڑ رہا۔کسی کو پتہ بھی نہیں ۔اس وقت کون ان کے بیچ سے رخصت ہو رہا ہے ۔کچھ ہار پھول سب نے امرتا پر ڈالے اور اس کا ڈولا اس گھر سے اٹھ گیا۔
گھر والے اس کے سا تھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔شمشان نزدیک ہی گرین پارک میں ہے ۔بس دس منٹ لگے ۔وہاں پہنچنے میں ۔بلکہ اس سے بھی کم ۔امرتا کی باڈی جہاں لے جا کر رکھی ہے ۔اس جگہ پر لکھا ہے ’وشرام استھل‘(مقام استراحت)۔چتا دور کہیں اندر تیار کی جا رہی ہے ۔نو راج سنسکار پورے کر رہے ہیں ۔امروزاور امن ساتھ میں ہیں۔تھوڑی دیر میں چتا تیار ہو گئی۔امرتا کو اس پر لٹا دیا گیا ۔ہار پھول الگ کر دئے گئے۔پنڈت چتا تیار کرنے والے کو بتا رہا ہے کہ پتلی لکڑیاں سرہانے لگاؤ۔بیچ بیچ میں چندن کی لکڑیاں ہیں۔
امرتا شعلوں میںسماتی جا رہی ہے ۔معلوم سے محسوس کی طرف۔ ظاہر سے غیب کی طرف۔محدود سے لا محدود کی طرف۔الکا بے اختیار چیخ چیخ کر رونے لگتی ہے۔سب اسے تسلی دے رہے ہیں ۔امروزبڑے ضبط اور حوصلے کے ساتھ با لکل خاموش کھڑے ہیں ۔میرے لئے برداشت کرنا مشکل ہے ۔امروز کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہوں۔سامنے لوگ پہلے سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔وہ موہن جیت ہیں ۔پنجابی اکادمی کے بھی کچھ لوگ ہیں ۔ڈاکٹر علی جاوید بھی ہیں۔اما شرما ۔منا اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں ۔جنہیں میں نہیں جانتی۔
اما کہہ رہی ہے ۔وہ اتنے پیار سے تمہارا اور فرحت کا ذکر کرتی تھیں کہ مجھے رشک آتا تھا۔اب ملاقات دیکھو ۔کہاں ہو رہی ہے ۔میں اس کا ہاتھ تھام کر اسے صرف دیکھتی رہ جاتی ہوں۔ اس وقت کچھ بھی کہنا میرے بس میں نہیں ۔
رات گھر چکی ہے ۔لوگ آہستہ آہستہ واپس جا رہے ہیں ۔ موہن جیت نے امروز سے کچھ پوچھا ہے ۔امروزکی آواز میرے کانوں میں آرہی ہے ۔آخری رسم کر دی۔زندگی میں جب خوشیوں کو formalise کرنے میں یقین نہیں کیا تو اب دکھوں کو کیا formaliseکرنا۔وہ چلے گئے تو امروزکو میری فکر ہوئی۔تیرا گھر دور ہے ۔تجھے دیر ہو جا ئے گی۔
چتا ابھی جل رہی ہے ۔وہ مجھے اور امیا کو ساتھ لے کرپیدل ہی بس اسٹاپ تک چھوڑنے چل پڑے ہیں.... . OO
اسما سلیم
امرتا کے بارے میں خواب۔میں بہت دنوں سے دیکھ رہی تھی اور ایک بھی خواب ایسا نہیں تھاجو دل کے اندیشوں کو دور کر دیتا۔پچھلے دس دنوں میں تو دو بار ایسا ہوا کہ خواب دیکھ کرمیں گھبرا گئی ۔امروزکو فون کیا ۔انہوں نے ہمیشہ کی طرح بشاش لہجے میں کہا کہ سب خیریت ہے تو دل کو ذرا قرار آگیا ۔مگر یہ قرار عارضی تھا....31اکتوبرکو دوپہر تین۔ساڑھے تین کے آس پاس کا وقت تھا۔جب دفتر میں میری میز پر رکھے فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ دوسری طرف فرحت بتا رہے تھے کہ ابھی ابھی امروزکا فون آیا ہے ۔امرتا نہیں رہیں۔صبح گیارہ بجے میری امروز سے بات ہوئی تھی ۔تب تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔اگلے پندرہ منٹ میں امرتا کے گھر پہنچ گئی۔الکا نے دروازہ کھولا۔اوپر جانے کا اشارہ کرکے واپس اندر چلی گئی ۔میں امرتا کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
امرتا بستر پر اسی طرح لیٹی ہوئی ہے۔جیسے ہمیشہ لیٹتی تھی۔مجھے اس کا آدھا چہرہ نظر آرہاہے۔آدھا دائیں جانب مڑا ہوا ہے ۔کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا ۔کہ سانس کا وہ تار جس نے گذشتہ تین برسوں سے اس کا رشتہ حال سے جوڑ رکھا تھا ۔آج ٹوٹ گیا ہے ۔ڈاکٹر سرہانے کھڑی کچھ لکھ رہی ہے ۔اب کون سا نسخہ باقی ہے ۔مجھے خیال آیا۔اتنے میں اس نے اپنا پیڈ سامنے رکھ دیا۔وہ ڈیتھ سرٹیفکٹ تھا ۔اس نے امرتا کے جانے کی تصدیق کر دی تھی۔اس کے مطابق امرتا کا انتقال دو پہر لگ بھگ دو ڈھائی بجے سوتے میں ہوا تھا۔
موت کا سبب اس نے دل کا دورہ لکھا ہے ۔لیکن امرتا تو اتنی کمزور ہو چکی تھی ۔اتنی گھل چکی تھی۔کہ کسی بھی وقت یوں ہی جا سکتی تھی۔اس دوران امیا امرتا کے سرہانے موڑھے پر بیٹھ گئی۔وہ کہہ رہی ہے ۔ ’’اسماادھر آجا!امرتا جی نوں ویکھ لے ۔‘‘میں نے نفی میں گردن ہلا دی ۔میں اپنی یادوں میں اس کی آخری تصویر ایسے نہیں رکھوں گی۔ ۔ ۔ آنسو بہہ نکلے۔امروز کا ہاتھ میرے کندھے پر ہے ۔ڈاکٹر افسوس کے ساتھ کہہ رہی ہے ۔ان کے بہت شدید درد تھا ۔تڑپ کر موت کی آرزو کرنے لگتی تھیںاس حالت میں بھی میں نے کبھی ان کے اخلاق اور وضع داری میں کمی نہیں دیکھی۔آج کیسے چپ چاپ چلی گئیں۔
لمحہ بھر پہلے امروز کمرے سے باہر گئے تھے۔واپس آگئے ۔ان حالات میں بھی وہ اپنا فرض نہیں بھولتے۔ایک سفید لفافہ ڈاکٹر کی طرف بڑھا دیا۔اس کی آنکھوں اور آواز میں نمی اتر آئی۔نہیںآج نہیں!ڈاکٹر کمرے سے باہر نکلی تو الکا مجھ سے لپٹ گئی۔جب سے امرتا بستر سے لگی تھی ۔ امروز کی اور اس کی کتنی راتیں صبح ہوئیںاور کتنی صبحیںشاموں میں بدلیں۔یہ صرف وہی جانتے ہیں ۔کینڈی بھی پہنچ گئی۔اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا ہے ۔آج در حقیقت وہ یتیم ہو گئی ہے ۔وہ شاید ایک سال کی تھی ۔جب یتیم خانے میں اس نے امرتا کا پلو پکڑ لیا تھااور امرتا نے اسے گود لے لیا تھا ۔اس کے بعد امرتا کے یہاں نوراج کا جنم ہوا لیکن وہ گھر کی بڑی بیٹی ہی رہی ۔آج بھی ہے ۔ امرتا یا گھر کے کسی بھی فرد نے اس کے ساتھ کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔
الکامجھ سے کاکا کا موبائل نمبر پوچھ رہی ہے ۔کاکا سدھ یوگی ہیں۔ امرتا کے دل میں ان کے لئے جو پیار اور بھکتی تھی ۔اس کا ذکر بہت جگہوں پر کیا ہے ۔میں نے جیسے ہی ان کو امرتاکے بارے میں بتایا۔انہوں نے فوراً کہا’بچے ۔لے جانے سے پہلے۔ان کے ماتھے پر دونوں ابرو ؤں کے بیچ میں۔مقام قلب پر اور دونوں ہتھیلیوں پر تلک کر دے۔پھر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر تری شتی استوتر کا پاٹھ کردے ۔یہ ضروری ہے ۔ ۔ ۔ میرا دل تڑپ گیا۔یہ کیسی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔میں تو اس کے چہرے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہی کہ مجھے اپنے ذہن میںِہمیشہ اس کی روشن اور جگمگاتی تصویر چاہئے۔اس حالت میں.....
نوراج آخری رسوم کا سامان لے آئے ہیں ۔وہ ڈیڈ باڈی کو لے جانے ولی گاڑی بلانے کے لئے فون کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہماری طرف سے سب تیار ہے ۔آپ ابھی آجائیے۔(کسی کے انتظار میں رکنا تو تھا نہیں )میں نے امن(امرتا کا پوتا)سے تلک کے لئے کہا۔تو وہ سائیں کی دھونی لے آیا کہ دادی تو ہمارا تلک اسی سے کرتی تھیں۔میں ڈبیا لے کر امرتا کے سرہانے جا بیٹھی ۔چادر سرکائی۔پیشانی چمک رہی ہے۔یہ پیشانی جا نے کن کن منظروں کی گواہ ہے ۔اس پر دانشوری کی تینوں لکیریں اسی طرح سیدھی کھنچی ہوئی ہیں ۔بدن رخصت ہو گیا ۔مگر اس کی فکر ۔اس کا علم باقی ہے ۔
دونوں ابروؤں کے بیچ میں تلک کیا۔تو لگا کہ وہ مسکرائی ہے ۔دل بھیگنے لگا۔سکھی!آخری وقت میں قریب رہنے کا وعدہ اسی کے لئے لیا تھا۔ تمہارا سنگھار تو قدرت نے خود نور سے کیا ہے ۔ذرا اٹھ کر دیکھو اور بتاؤ۔کس سے ملاقات کی نشانی تمہارے ماتھے پر روشن ہے اور چہرہ اتنا چمک رہا ہے ۔تم تو بہت درد سہہ رہی تھیں۔اس کا ایک بھی نشان تمہارے چہرے پر کہیں نظر نہیں آرہا۔
ایک ہاتھ سے چادر کا کونا پکڑ کردوسرے ہاتھ سے اس کے دل کے مقام پر تلک کیا ۔کہتے ہیں ۔جس کا یہ چکر کھل جاتا ہے ۔وہ زمان و مکان۔مذہب ۔ذات۔پات ہر امتیاز سے بالا تر ہو جاتا ہے ۔اسی لئے اس کے دل میں ہر ایک کے لئے جگہ تھی۔دکھ چا ہے کسی کا ہو صدیوں کے فاصلے پر بھی۔وہ اسے محسوس کر سکتی تھی۔ڈاکٹروں سے کہتی تھی کہ اگر دل میں یہ درد نہ ہوتا تو شاعری نہ ہوتی ۔کاکا نے دونوں ہتھیلیوں پر بھی تلک کرنے کو کہا تھا ۔ اس کا دایاں ہاتھ سائڈمیں سیدھا رکھا ہے۔ہتھیلی تھوڑی سی کھلی ہوئی ۔بایاں ہاتھ سینے پر ہے ۔ذرا سا اٹھا کر وہاں بھی تلک کر دیا ۔
اس کا سنگھار پورا ہو چکا ۔رخصت کی گھڑی قریب آتی جا رہی ہے ۔اس سے پہلے ہی مجھے پاٹھ کرنے ہیں ۔میں نے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔ ایک دم سرد ہے ۔پا ٹھ شروع کیا ۔خدا جانے کیسی لہریں ہیں کہ میں پوری کی پوری مرتعش ہو اٹھی ہوں ۔میری آنکھیں بند ہیں ۔لگتا ہے آواز میری نہیں کسی اور کی ہے ۔میں اور امرتا چپ چاپ پاٹھ سن رہے ہیں ۔ایک ایسی کیفیت جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں ۔اسے چھونے پر پہلے پہل جو سرد سا احساس ہوا تھا۔وہ اب کہیںنہیں ۔میری سکھی ہمیشہ کی طرح میرے پاس بالکل میرے ساتھ ہے ۔میں آنکھیں کھولنا چاہتی ہوں ۔لیکن آنکھیں نہیں کھل رہیں۔کوئی میرا ہاتھ اس کے ماتھے سے ہٹا دیتا ہے ۔’ اسما یہ دیکھنے آئے ہیں ‘میں آنکھیں کھولتی ہوں ۔آنے والی ان پر نظر ڈال کرواپس جا رہی ہے ۔میں دوبارہ ماتھے پرہاتھ رکھ دیتی ہوں ۔ترنگوں سے بنی ہوئی امرتا پھر میرے پاس آ جاتی ہے (کیا کاکا نے اسی لئے پاٹھ کرنے کو کہا تھا؟)
کتنے سارے منظر میری آنکھوں کے سامنے بچھ گئے ہیں ۔کبھی ساحر کے گھر ’پرچھائیاں ‘ کی نیلامی کو لے کر اداس ہے ۔کبھی افغانستان پر امریکی حملے کو لے کرپریشان ۔وہاں کی گپھائیں تو اس کی سانسوں میں بستی تھیں۔جب میں اس کی نظموں کا ترجمہ کر رہی تھی۔تو نظم ’سنیہڑے ‘پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی تھیں۔اگست 2002 میں امروزکا بخار طول پکڑ گیا تو وہ اپنی تکلیف بھول گئی ۔بار بار کہتی ۔میں امروز کے بنا نہیں رہ سکتی ۔اکثر کہتی مجھے امروز اور تجھے فرحت نہ ملتے تو ہم دونوںکی مکتی نہ ہوتی ۔
ہمیشہ لکھنے کے لئے اصرار کرتی ۔مگر میں سنتی ہی نہیں تھی ۔تب اس نے ایک دن غصے میں کہا جب میں مر جاؤں گی یہ تب لکھے گی ۔(امرتا !ذرا دیکھ۔میں لکھنے لگی ہوں ۔تو پھر بھی چلی گئی)اس کی شاعری پر مضمون لکھا۔اس میں نظم ’ نو سپنے ‘ کی وضاحت پڑھ کر بے حد روئی کہ اس طرح میری شاعری کو کسی نے سمجھا ہی نہیں ۔
اسے لے جانے کے لئے گاڑی آگئی۔سنگھار پورا ہو چکا تھا ۔ سفید گھونگھٹ منہ پر ڈال کر نیچے لایا گیا ۔ارتھی کنارے پر ہے ۔میں اور امروز اس تختے کو بیچ میں لا کر رکھ دیتے ہیں۔اسے لٹا دیا گیا۔گاڑی کے ساتھ جو لوگ آئے تھے ۔ان میں سے کسی نے کہا ۔رسی سے باندھ دو۔اجیت کور نے اس پر فوراً احتجاج کرتے ہوئے کہا۔یہ اتنی نازک ہے ۔رسی کیوں۔ چنری استعمال کر لیتے ہیں ۔شلپا (پوتی ) چنری لے آئی۔اب اس کی تیاری پوری ہو گئی۔ڈولا اٹھنے کا وقت آگیا۔سب کے سب سوگوار۔سب کی آنکھیں نم ۔
یہ سب ہیں بھی کون ۔گھر کے لوگ۔اجیت کور۔ان کی بیٹی اپرنا کور۔ ناگ منی کے پبلشر۔پڑوس میں رہنے والی ایک لڑکی رانی۔امیا اور میں ۔ کسی اخبار سے ایک رپورٹر اور فوٹوگرافر۔کوئی بھیڑ بھاڑ نہیں ۔امرتا کی وصیت تھی کہ اس کی موت پر کسی کو اطلاع نہ دی جائے۔حالانکہ جیسے بھی ہیں سب اس کے چاہنے والے ہی ہیں ۔سب کو افسوس رہے گا کہ شہر میں ہوتے ہوئے بھی اس کے آخری دیدار سے محروم رہے ۔لیکن شور شرابے اور ہنگامے سے اسے کوئی دل چسپی تھی ہی نہیں ۔مجھے 31اکتوبر کو ہو نے والی ایک اور موت یاد آگئی۔جو1984 میں ہوئی تھی۔امرتا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ۔بے حد انوکھی شخصیت کی مالک ۔اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اپنے عہد کو متاثر کیااور عجیب بات یہ کہ دونوں ایک ہی تاریخ کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔
یہ گھر ۔تخلیق کا سدھ پیٹھ!امرتا اور امروز نے مل کر بنایا تھا۔اس کے درودیوار نے کتنی تاریخی شخصیتوںکو دیکھا ہے ۔کتنی یادگار ملاقاتوں کے وہ گواہ ہیں۔کملیشور تو اسے سارے ایشیائی ادیبوں کا ٹھکانہ کہتے ہیں ۔اس گھر سے آج وہ ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی ۔لوگوںکے ساتھ پیڑ پودوں کے بھی سر جھکے ہوئے ہیں ۔یہ سب اس نے خود لگائے تھے ۔خود ا ن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ان سے باتیں کرتی تھی۔جب سے وہ بیمار پڑی ۔پودوں کی ذمہ داری امروز نے سنبھال لی۔اب یہ بھی خاموش اسے آخری بار دیکھ رہے ہیں....
شام کے سائے گہرے ہو چلے ہیں۔دیوالی کی رونق اپنے شباب پر ہے ۔بم دھماکوں سے بھی اس پر کوئی اثر نہیںپڑا۔زندگی اپنی رفتار سے جاری ہے ۔کون آیا ۔کون چلاگیا ۔اس سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے آج نہیں پڑ رہا۔کسی کو پتہ بھی نہیں ۔اس وقت کون ان کے بیچ سے رخصت ہو رہا ہے ۔کچھ ہار پھول سب نے امرتا پر ڈالے اور اس کا ڈولا اس گھر سے اٹھ گیا۔
گھر والے اس کے سا تھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔شمشان نزدیک ہی گرین پارک میں ہے ۔بس دس منٹ لگے ۔وہاں پہنچنے میں ۔بلکہ اس سے بھی کم ۔امرتا کی باڈی جہاں لے جا کر رکھی ہے ۔اس جگہ پر لکھا ہے ’وشرام استھل‘(مقام استراحت)۔چتا دور کہیں اندر تیار کی جا رہی ہے ۔نو راج سنسکار پورے کر رہے ہیں ۔امروزاور امن ساتھ میں ہیں۔تھوڑی دیر میں چتا تیار ہو گئی۔امرتا کو اس پر لٹا دیا گیا ۔ہار پھول الگ کر دئے گئے۔پنڈت چتا تیار کرنے والے کو بتا رہا ہے کہ پتلی لکڑیاں سرہانے لگاؤ۔بیچ بیچ میں چندن کی لکڑیاں ہیں۔
امرتا شعلوں میںسماتی جا رہی ہے ۔معلوم سے محسوس کی طرف۔ ظاہر سے غیب کی طرف۔محدود سے لا محدود کی طرف۔الکا بے اختیار چیخ چیخ کر رونے لگتی ہے۔سب اسے تسلی دے رہے ہیں ۔امروزبڑے ضبط اور حوصلے کے ساتھ با لکل خاموش کھڑے ہیں ۔میرے لئے برداشت کرنا مشکل ہے ۔امروز کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہوں۔سامنے لوگ پہلے سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔وہ موہن جیت ہیں ۔پنجابی اکادمی کے بھی کچھ لوگ ہیں ۔ڈاکٹر علی جاوید بھی ہیں۔اما شرما ۔منا اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں ۔جنہیں میں نہیں جانتی۔
اما کہہ رہی ہے ۔وہ اتنے پیار سے تمہارا اور فرحت کا ذکر کرتی تھیں کہ مجھے رشک آتا تھا۔اب ملاقات دیکھو ۔کہاں ہو رہی ہے ۔میں اس کا ہاتھ تھام کر اسے صرف دیکھتی رہ جاتی ہوں۔ اس وقت کچھ بھی کہنا میرے بس میں نہیں ۔
رات گھر چکی ہے ۔لوگ آہستہ آہستہ واپس جا رہے ہیں ۔ موہن جیت نے امروز سے کچھ پوچھا ہے ۔امروزکی آواز میرے کانوں میں آرہی ہے ۔آخری رسم کر دی۔زندگی میں جب خوشیوں کو formalise کرنے میں یقین نہیں کیا تو اب دکھوں کو کیا formaliseکرنا۔وہ چلے گئے تو امروزکو میری فکر ہوئی۔تیرا گھر دور ہے ۔تجھے دیر ہو جا ئے گی۔
چتا ابھی جل رہی ہے ۔وہ مجھے اور امیا کو ساتھ لے کرپیدل ہی بس اسٹاپ تک چھوڑنے چل پڑے ہیں.... . OO