عمر بھر ایک ملاقات چلی آتی ہے
امروز
امرتا سے میری پہلی ملاقات 1956میں ہوئی تھی اور آج تک وہی ملاقات چلی آرہی ہے ۔ایسے لگتا ہی نہیں کہ اس سے ملنے سے پہلے میں exist بھی کرتا تھا۔
جب اس سے ملا تب ہی سے existکرنا شروع کیا۔تمام رشتوں کا مفہوم اسی ایک رشتے سے سمجھ میں آیا۔تب ہی امرتا نے بھی لکھا تھا: ’’...باپ ،بھائی،دوست اورخاوند/کسی لفظ
کا کوئی رشتہ نہیں /جب میں نے تمہیں دیکھا
تو یہ سارے لفظ با معنی ہو گئے ...‘‘
ایک نظم سناتا ہوں،ذرا لمبی ہے ،مگر سنو...
سامنے کئی راہیں بچھی تھیں
مگر کوئی راہ ایسی نہیںتھی
جس کے ساتھ میرا اپنا آپ چل سکے
سوچتا کوئی ہو منزل جیسی راہ...
وہ ملی تو گویا ایک امید ملی زندگی کی
یہ ملن چل پڑا...
ہم اکثر ملنے لگے
چپ چاپ کچھ کہتے ،کچھ سنتے
چلتے چلتے کبھی کبھی
ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے
ایک دن چلتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں
میرے ہاتھ کی انگلیوں میں ملادیں
اور میری طرف اس طرح دیکھا
جیسے زندگی پہیلی بوجھنا چاہتی ہو
کہ بتا تیری انگلیاں کون سی ہیں
میں نے اس کی طرف دیکھا
اور نظر سے ہی جواب دیا
ساری انگلیاں تیری بھی ہیں
ساری انگلیاں میری بھی۔ ۔ ۔
ایک تاریخی عمارت کے باغیچے میں چلتے ہوئے
میرا ہاتھ پکڑ کر
کچھ یوں دیکھا
جیسے پوچھ رہی ہو
اس طرح میرے ساتھ
توکہاں تک چل سکتا ہے
میں نے کتنی ہی دیر
اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا
جیسے ہتھیلیوں کے راستے
زندگی سے کہہ رہا ہوں
جہاں تک تم سوچ سکو
کتنے ہی برس بیت گئے
اسی طرح چلتے ہوئے
ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے
ساتھ لیتے ہوئے
اس راہ پر
ایک منزل جیسی راہ پر!
تب سے اب تک میں اکیلا نہیں ہوا ۔کبھی ایسا لگا ہی نہیںکہ کسی دوسرے کے ساتھ ہوں ۔اس کے ساتھ رہ کر اپنے ساتھ جیتا رہا۔ امرتا جب بستر سے لگی تو شروع شروع میں وہ کہتی تھی کہ تم بس میرے پاس بیٹھے رہو،میں اور زیادہ بیمار ہوجاؤں تب بھی مجھے اسپتال نہ لے جانا،میں تمہارے پاس اسی گھر میں مرنا چاہتی ہوں۔کسی اور کے ساتھ اس کا اس طرح کا تعلق تھا ہی نہیں،اپنے بیٹے کے ساتھ بھی نہیں۔سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق اسے دیکھتے اور سمجھتے تھے۔اس طرح ضرورت تو پوری ہوتی ہے لیکن ایک تعلق کی تکمیل نہیں ہوتی۔لکھنے والوں نے بھی اس کے گھر پر ،اس کے ساتھ ملاقاتوں پر لکھا ہے،کہ ایسے رہتی ہے ،ایسے بولتی ہے،ایسے جیتی ہے ،اس کے فن پر اس کی تخلیقات پر کوئی نہیں لکھتا۔
تکلیف میں جب اس نے بولنا چھوڑ دیا ،بھولنے بھی لگی اور صرف دیکھتی تھی،تب ایسا محسوس ہوتا تھا،گویا آنکھوں سے بولتی ہے ،آنکھوں سے سنتی ہے ۔بدن میں شدید درد تھا،مگر آنکھیں اداس نہیں تھیں۔اس حالت میں اسے کوئی اور کھانا کھلاتا تو بہ مشکل اک چمچ کھا تی تھی۔ایک ساتھ بہت سا تو خیر اس نے کبھی نہیں کھایا،لیکن جب میں کھلاتا تو پوری کٹوری کھا لیتی۔در اصل اسے صرف کھانے سے دل چسپی نہیں تھی،ا س بہانے وہ کسی کی موجودگی چاہتی تھی۔اس نے کھانا پکانا ہی مجھ سے ملنے کے بعد شروع کیا تھا۔اس کے گھر میں تو کھانا نوکر پکاتا تھا۔
ایک بار ہم لوگ سوبھا سنگھ جی کے یہاں گئے۔وہ اور ان کی بیوی دونوں ہی کافی بزرگ تھے۔ہمیں اچھا نہیں لگا کہ ان سے پکوا کر کھائیں۔مجھے روٹی پکانی نہیں آتی تھی ، میں نے امرتا سے کہا ،تم پکا لو۔ان کے یہاں لکڑیاں جلاکر کھا نا پکایا جاتا تھا،لکڑیاں گیلی تھیں،اس نے کہا تم آگ کا خیال رکھنا،روٹی میں پکا لوں گی۔ساری زندگی میں آگ کا خیال رکھتا رہا۔یعنی سامان لانا اور انتظام کرنا میری ذمہ داری بنا اور روٹی پکانا اس کی۔
اس کے ساتھ بات کرنا شاعری کرنا تھا،اس کے ساتھ جینا شاعری کو جینا تھا،اس کے ساتھ گفتگو ہوتی تھی ...تو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی،اس وقت شاعری مجسم تھی۔اب یہ ہے کہ...
کل تک
زندگی کے پاس ایک درخت تھا
زندہ درخت
پھولوں ،پھلوں اور خوشبوؤں سے بھرا ہوا
اور آج
زندگی کے پاس صرف ذکر ہے
مگر زندہ ذکر
اسی درخت کا
درخت
جو بیج بن گیا
اور بیج ہواؤں کے ساتھ مل کر اڑ گیا
پتہ نہیں
کس دھرتی کی تلاش میں !
میں مصور ہوں،تصویریں بناتا ہوں،تصویریں بنانے کے لئے،آرٹسٹ ہونے کے لئے مشہور ہونا ضروری نہیں۔ہر ایک کو شہرت مل بھی نہیں سکتی،لیکن اندر تخلیق کا جذبہ ہو تو آپ فن کار ضرور ہو سکتے ہیں ۔وان گاگ اور لیو ناردو داونچی، تخلیق کار دونوں ہی ہیں ،مگر شہرت تو ایک ہی کو ملی۔تان سین کو اکبر نے رکھ لیا ،ا س کا مطلب یہ تو نہیںکہ اس کے علاوہ کوئی اور موسیقار نہیں تھا،لیکن اکبر ہر ایک کو تو نہیں رکھ سکتا تھا۔تان سین کے گرو اس سے کہیں بڑے مو سیقار تھے،مگر وہ تو جھونپڑی میں رہتے تھے۔شہرت کا سوال میری خواہشوں میں ہے ہی نہیں۔میں اپنے ہنر کے ساتھ خوش ہوں۔میری فکر اور شعور کے افق پر جو رنگ کھلتے ہیں انہیں مصور کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔کسی اور کو بھی اس سے خوشی ملے تو ٹھیک ہے ،نہیں تو کوئی بات نہیں ،اس کے لئے میں خود کو کیوں بدلوں؟
اس لئے میں اب بھی ویسا ہی ہوں جیسا امرتا کے ساتھ تھا۔سارے کام اسی طرح کرتا ہوں جیسے اس کی موجودگی میں کرتا تھا۔ جب اس کے پھول جمنا میں بہانے گئے تو پھول بہاکر وہاں سے میں جلدی جلدی گھر واپس آیا ،یہ سوچ کر کہ امرتا انتظار کر رہی ہوگی،گھر آکر دیکھا تو اس کی باڈی تھی ہی نہیں۔اس سے میرے اندر کوئی فرق نہیں پڑا ۔وہاں تو وہ اسی طرح موجود ہے جیسے باڈی کے ساتھ تھی
بہتے پانیوں کے ساتھ ساتھ
چلتے ہوئے
وہ پوچھتی ہے
تو میرے ساتھ
کس جنم سے ہے
میں کہتا ہوں
جب سے جنم بنے ہیں
تب سے۔ ۔ ۔
اسما سلیم سے بات چیت پرمبنی
امروز
امرتا سے میری پہلی ملاقات 1956میں ہوئی تھی اور آج تک وہی ملاقات چلی آرہی ہے ۔ایسے لگتا ہی نہیں کہ اس سے ملنے سے پہلے میں exist بھی کرتا تھا۔
جب اس سے ملا تب ہی سے existکرنا شروع کیا۔تمام رشتوں کا مفہوم اسی ایک رشتے سے سمجھ میں آیا۔تب ہی امرتا نے بھی لکھا تھا: ’’...باپ ،بھائی،دوست اورخاوند/کسی لفظ
کا کوئی رشتہ نہیں /جب میں نے تمہیں دیکھا
تو یہ سارے لفظ با معنی ہو گئے ...‘‘
ایک نظم سناتا ہوں،ذرا لمبی ہے ،مگر سنو...
سامنے کئی راہیں بچھی تھیں
مگر کوئی راہ ایسی نہیںتھی
جس کے ساتھ میرا اپنا آپ چل سکے
سوچتا کوئی ہو منزل جیسی راہ...
وہ ملی تو گویا ایک امید ملی زندگی کی
یہ ملن چل پڑا...
ہم اکثر ملنے لگے
چپ چاپ کچھ کہتے ،کچھ سنتے
چلتے چلتے کبھی کبھی
ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے
ایک دن چلتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں
میرے ہاتھ کی انگلیوں میں ملادیں
اور میری طرف اس طرح دیکھا
جیسے زندگی پہیلی بوجھنا چاہتی ہو
کہ بتا تیری انگلیاں کون سی ہیں
میں نے اس کی طرف دیکھا
اور نظر سے ہی جواب دیا
ساری انگلیاں تیری بھی ہیں
ساری انگلیاں میری بھی۔ ۔ ۔
ایک تاریخی عمارت کے باغیچے میں چلتے ہوئے
میرا ہاتھ پکڑ کر
کچھ یوں دیکھا
جیسے پوچھ رہی ہو
اس طرح میرے ساتھ
توکہاں تک چل سکتا ہے
میں نے کتنی ہی دیر
اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا
جیسے ہتھیلیوں کے راستے
زندگی سے کہہ رہا ہوں
جہاں تک تم سوچ سکو
کتنے ہی برس بیت گئے
اسی طرح چلتے ہوئے
ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے
ساتھ لیتے ہوئے
اس راہ پر
ایک منزل جیسی راہ پر!
تب سے اب تک میں اکیلا نہیں ہوا ۔کبھی ایسا لگا ہی نہیںکہ کسی دوسرے کے ساتھ ہوں ۔اس کے ساتھ رہ کر اپنے ساتھ جیتا رہا۔ امرتا جب بستر سے لگی تو شروع شروع میں وہ کہتی تھی کہ تم بس میرے پاس بیٹھے رہو،میں اور زیادہ بیمار ہوجاؤں تب بھی مجھے اسپتال نہ لے جانا،میں تمہارے پاس اسی گھر میں مرنا چاہتی ہوں۔کسی اور کے ساتھ اس کا اس طرح کا تعلق تھا ہی نہیں،اپنے بیٹے کے ساتھ بھی نہیں۔سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق اسے دیکھتے اور سمجھتے تھے۔اس طرح ضرورت تو پوری ہوتی ہے لیکن ایک تعلق کی تکمیل نہیں ہوتی۔لکھنے والوں نے بھی اس کے گھر پر ،اس کے ساتھ ملاقاتوں پر لکھا ہے،کہ ایسے رہتی ہے ،ایسے بولتی ہے،ایسے جیتی ہے ،اس کے فن پر اس کی تخلیقات پر کوئی نہیں لکھتا۔
تکلیف میں جب اس نے بولنا چھوڑ دیا ،بھولنے بھی لگی اور صرف دیکھتی تھی،تب ایسا محسوس ہوتا تھا،گویا آنکھوں سے بولتی ہے ،آنکھوں سے سنتی ہے ۔بدن میں شدید درد تھا،مگر آنکھیں اداس نہیں تھیں۔اس حالت میں اسے کوئی اور کھانا کھلاتا تو بہ مشکل اک چمچ کھا تی تھی۔ایک ساتھ بہت سا تو خیر اس نے کبھی نہیں کھایا،لیکن جب میں کھلاتا تو پوری کٹوری کھا لیتی۔در اصل اسے صرف کھانے سے دل چسپی نہیں تھی،ا س بہانے وہ کسی کی موجودگی چاہتی تھی۔اس نے کھانا پکانا ہی مجھ سے ملنے کے بعد شروع کیا تھا۔اس کے گھر میں تو کھانا نوکر پکاتا تھا۔
ایک بار ہم لوگ سوبھا سنگھ جی کے یہاں گئے۔وہ اور ان کی بیوی دونوں ہی کافی بزرگ تھے۔ہمیں اچھا نہیں لگا کہ ان سے پکوا کر کھائیں۔مجھے روٹی پکانی نہیں آتی تھی ، میں نے امرتا سے کہا ،تم پکا لو۔ان کے یہاں لکڑیاں جلاکر کھا نا پکایا جاتا تھا،لکڑیاں گیلی تھیں،اس نے کہا تم آگ کا خیال رکھنا،روٹی میں پکا لوں گی۔ساری زندگی میں آگ کا خیال رکھتا رہا۔یعنی سامان لانا اور انتظام کرنا میری ذمہ داری بنا اور روٹی پکانا اس کی۔
اس کے ساتھ بات کرنا شاعری کرنا تھا،اس کے ساتھ جینا شاعری کو جینا تھا،اس کے ساتھ گفتگو ہوتی تھی ...تو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی،اس وقت شاعری مجسم تھی۔اب یہ ہے کہ...
کل تک
زندگی کے پاس ایک درخت تھا
زندہ درخت
پھولوں ،پھلوں اور خوشبوؤں سے بھرا ہوا
اور آج
زندگی کے پاس صرف ذکر ہے
مگر زندہ ذکر
اسی درخت کا
درخت
جو بیج بن گیا
اور بیج ہواؤں کے ساتھ مل کر اڑ گیا
پتہ نہیں
کس دھرتی کی تلاش میں !
میں مصور ہوں،تصویریں بناتا ہوں،تصویریں بنانے کے لئے،آرٹسٹ ہونے کے لئے مشہور ہونا ضروری نہیں۔ہر ایک کو شہرت مل بھی نہیں سکتی،لیکن اندر تخلیق کا جذبہ ہو تو آپ فن کار ضرور ہو سکتے ہیں ۔وان گاگ اور لیو ناردو داونچی، تخلیق کار دونوں ہی ہیں ،مگر شہرت تو ایک ہی کو ملی۔تان سین کو اکبر نے رکھ لیا ،ا س کا مطلب یہ تو نہیںکہ اس کے علاوہ کوئی اور موسیقار نہیں تھا،لیکن اکبر ہر ایک کو تو نہیں رکھ سکتا تھا۔تان سین کے گرو اس سے کہیں بڑے مو سیقار تھے،مگر وہ تو جھونپڑی میں رہتے تھے۔شہرت کا سوال میری خواہشوں میں ہے ہی نہیں۔میں اپنے ہنر کے ساتھ خوش ہوں۔میری فکر اور شعور کے افق پر جو رنگ کھلتے ہیں انہیں مصور کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔کسی اور کو بھی اس سے خوشی ملے تو ٹھیک ہے ،نہیں تو کوئی بات نہیں ،اس کے لئے میں خود کو کیوں بدلوں؟
اس لئے میں اب بھی ویسا ہی ہوں جیسا امرتا کے ساتھ تھا۔سارے کام اسی طرح کرتا ہوں جیسے اس کی موجودگی میں کرتا تھا۔ جب اس کے پھول جمنا میں بہانے گئے تو پھول بہاکر وہاں سے میں جلدی جلدی گھر واپس آیا ،یہ سوچ کر کہ امرتا انتظار کر رہی ہوگی،گھر آکر دیکھا تو اس کی باڈی تھی ہی نہیں۔اس سے میرے اندر کوئی فرق نہیں پڑا ۔وہاں تو وہ اسی طرح موجود ہے جیسے باڈی کے ساتھ تھی
بہتے پانیوں کے ساتھ ساتھ
چلتے ہوئے
وہ پوچھتی ہے
تو میرے ساتھ
کس جنم سے ہے
میں کہتا ہوں
جب سے جنم بنے ہیں
تب سے۔ ۔ ۔
اسما سلیم سے بات چیت پرمبنی