Sunday, June 7, 2009

گوپی چند نارنگ سے سات سوال

گفتگو

گوپی چند نارنگ سے سات سوال

نصرت ظہیر

پروفیسر گوپی چند نارنگ کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن ہیں مجھے انڈر اسٹیٹمنٹ معلوم ہوتا ہے۔ اردو میں لسانیات ، تحقیق اور تنقید کے تعلق سے بہ لحاظ معیار و مقدار جتنا کام انہوں نے اب تک کیا ہے، اور ہمارے ادبی منظرنامہ پراس کے جو اثرات مرتّب ہوئے ہیں انہیں ذہن میں رکھیں ، تو نارنگ کی شخصیت ایک تحریک کی صورت میں ہمارے سامنے آتی ہے۔ اردو اور ہندی سمیت ملک کی تقریباً چوبیس زبانوں کے ادب کی دیکھ ریکھ کرنے والی ساہتیہ اکادمی کا پہلا ۔۔۔’اردو صدر‘ منتخب ہونے کے بعد ان کی شخصیت پورے ہندوستانی ادبی منظر نامہ کا حصہ بن گئی ہے۔ایسے میں اردو ادب اور اس کے ساتھ ساتھ دوسری ہندوستانی زبانوں کے ادب کی موجودہ صورت حال، مستقبل کے امکانات اور الیکٹرانک میڈیا کے زبردست پھیلاؤ کے اس دور میں ادب اور ادیبوں کو درپیش چیلنجوں کے بارے میں ان کی خاص رائے جاننا ہم سب ار دو والوں کے لئے مفید ثابت ہو سکتا ہے۔ سوال بہت سے ہیں جو اُن سے کئے جا سکتے تھے، مگر ان کی بے پناہ مصروفیتوں کے دباؤ کی وجہ سے میں نے خود کو سات سوالوں تک محدود رکھا جو میرے خیال سے بنیادی نوعیت کے سوال ہیں :

پہلا سوال: اکیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کے نئے تقاضے آپ کی نظر میں کیا ہیں ؟

پروفیسر نارنگ: ادب انسانیت کی آواز ہے۔ اس لئے ادب کے بنیادی تقاضے تو وہی رہتے ہیں ، یعنی زندگی کی بصیرت،زندگی کے دکھ درد اور نشاط کے جملہ رنگوں کی قوس قزح جمالیاتی اثر کے ساتھ، جو دل و دماغ کو متاثر کرے،اور پڑھنے والوں کو داخلی طور پر بدل دے۔ لیکن ادب سب سے بڑا سماجی عمل بھی ہے۔ یعنی سماجی انصاف کی آواز ۔ادب اپنے وقت کی آواز بھی ہے ۔اور وقت کی آواز یعنی عصری تقاضے بدلتے رہتے ہیں ۔ادب بہتا پانی بھی ہے۔جس طرح وقت ساکت و جامد نہیں ، رواں دواں ہے، اسی طرح ادب بھی ساکت و جامد نہیں رواں دواں ہے۔ادب میں جو لوگ ایک ہی رویے، ایک ہی نظریے، ایک ہی رجحان پر اَڑتے ہیں ، وہ ادب کو منجمد کر دیتے ہیں ۔یہ ادب کے تحرک اور اس کی جدلّیات کے خلاف ہے۔اس پس منظر میں دیکھیں تو اکیسویں صدی میں اردو زبان و ادب کے تقاضے بھی وہ نہیں جو بیسویں صدی کے آغاز میں تھے۔مثال کے طور پر حالی، آزاد، شبلی اس اعتبار سے اپنے زمانے کی آواز تھے کہ وہ نو آبادیاتی نظام کا حصہ بھی تھے اور اس کے خلاف اپنے تہذیبی حربوں سے لڑ بھی رہے تھے۔یہی معاملہ سر سیّد احمد خاں کا ہے، جنہوں نے اس وقت کے معاشرے کو ادب کے ذریعے ایک نیا سماجی لائحہ عمل دینے کی کوشش کی۔اسی طرح اکبر الہ آبادی ہوں ، اقبال ہوں ، چکبست یا حسرت موہانی، یہ سب نو آبادیاتی، تہذیبی چیلنج سے نبرد آزما نظر آتے ہیں اور اپنے وقت کی آواز ہیں ۔

آج وہ حالات نہیں ۔آج کا منظر نامہ بالکل دوسرا ہے۔نہایت پیچیدہ، الجھنوں سے بھرا ہوا۔ ترقی پسندی کے زمانے میں مسئلہ اتنا مشکل نہیں تھا۔وطن دوستی، آزادی، عوام دوستی اور انگریز دشمنی کا ایجنڈا سامنے کا تھا۔جدیدیت، پراپیگنڈے اور بلند آہنگی کے خلاف تھی۔ذات کی جانب سفر بھی آسانی سے سمجھا جا سکتا تھا،اور فنّی قدر پر اصرار بھی۔ترقی پسندی اور جدیدیت نے اپنا اپنا کام بخوبی ادا کیا۔لیکن اب یہ سب کچھ اردو ادب کے قافلے کی گردِ راہ بن چکا ہے۔یہ ہماری تاریخ ہے جو جذب ہو چکی۔ہم اس پر فخر تو کر سکتے ہیں اس کو دو بارہ جی نہیں سکتے۔ مجاز ہوں یا مخدوم، جوش ہوں ، جاں نثار اختر، علی سردار جعفری، راشد یا میرا جی۔ ہم ان کی روایت کے امین تو ہیں لیکن ان کو دوبارہ جی نہیں سکتے۔پریم چند یا کرشن چندر کے محاورے میں آج لکھنا ممکن ہی نہیں ۔ آج کا ادب ان کو سلام تو کرے گا،لیکن اگر فقط ان ہی کی راہ پر چلے گا تو وہ آج کا ادب نہیں ہو سکتا۔آج دنیا بدل گئی ہے۔اردو ہو یا ہندی،بنگالی ہو یا مراٹھی،گجراتی ہو یا کنّڑ، پنجابی ہو یا ملیالم، سب کی ادبی فضا بدل گئی ہے۔

پہلے دشمن باہری طاقت تھی اب دشمن ہمارے اندر چھپا ہوا ہے۔آزادی کے بعد ہم نے کیا کھویا ہے کیا پایا ہے،اگر ہماری سوچ منجمد نہیں ،تو ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ دنیا کہاں سے کہاں پہونچ گئی ہے۔ ہمارے مسائل بھی بڑے ہیں، ہماری کامیابیاں بھی معمولی نہیں ۔آزادی کے لئے جو خواب دیکھے تھے، کچھ پورے ہوئے، کچھ ڈراؤنے خوابوں میں بدل گئے۔سب سے بڑی بات تہذیبی تصور اور فسطائیت کے چیلنج کی ہے۔ہم کیسا ہندوستان چاہتے ہیں ؟ جس کی تہذیب ملی جلی مشترک، رنگارنگ،گنگا جمنی تہذیب ہو یا فقط یک رنگ تہذیب؟ کیا صدیوں کے روا دارانہ سیکولر مزاج سے ہٹ کر ہندوستان کا کوئی مستقبل ہو سکتا ہے؟ خواہ کوئی سمجھے یا نہ کرے، یہ سوال ہر اردو لکھنے والے کو مضطرب کرتا ہوگا کہ ہماری جمہوریت تکثیری ہوگی یا نہیں ۔ ہماری جمہوریت ایک کامیاب جمہوریت ہے۔پورے ایشیاء میں ہندوستان جیسی جمہوریت کہیں نہیں ۔اس کے با وجود ہم نے ہنوز اقلیتوں کا احترام کرنا نہیں سیکھا۔تہذیب کا گنگا جمنی تصور ہماری سائیکی کا حصہ ہے۔لیکن اس پر وار کرنے والے بھی نہیں چوکتے۔اردو کو اس سب کا مقابلہ کرنا ہے۔ کیا آج کا اردو ادب ان تہذیبی اور سماجی تقاضوں سے بچ سکتا ہے؟

دوسرے یہ کہ جب جمہوری ہندوستان میں اردو کی طرح بیس بائیس زبانوں کو مساوی حقوق حاصل ہیں ،اور مادری زبان میں اسکولی تعلیم کو بطور ایک بنیادی حق کے تسلیم کر لیا گیا ہے،تو شمالی ہندوستان کی اردو بولنے والی اقلیتوں کو یہ حق کیوں نہیں دیا جاتا؟

تیسرے اور چوتھے نمبر پر ادبی نوعیت کے سوال ہیں ، یعنی اب نہ تو سرخ انقلاب اور نعرے بازی کا ادب لکھا جا سکتا ہے،نہ ہی اجنبیت، بے گانگی اور سماجی بے تعلقی کا ادب بر حق ہے۔ تو نئے سماجی سیاسی مسائل،دلت مسائل۔ یعنی اعلا اور نیچی ذاتوں میں کشاکش کے مسائل،نیز تہذیبی تشخص اور ثقافتی جڑوں کے مسائل، یا جنس کی سیاست (gender politics)، یہ سب ادب کے منظر نامے کا حصہ کیوں نہیں بنیں گے ؟ اگر آپ آج کے ادب کا بغور مطالعہ کریں ، تو آج کی نئی صورتِ حال میں ان سب کی جھلک کہیں گہری اور کہیں نمایاں آپ کو ملے گی۔ اب ادب کو ایک نظریہ کی کھونٹی سے نہیں باندھا جا سکتا۔ وہی تخلیق کار کھرا ہے جو اپنی اقدار اپنے اندر کی آواز سے طے کرے گا اور طے شدہ سچ کا نہیں اپنے بھوگے ہوئے سچ کا ادب لکھے گا۔

دوسرا سوال: آج کے اردو ادب کو پچاس یا سو سال پہلے کے ادب کے مقابلے میں آپ کہاں کھڑا پاتے ہیں ؟ خاص طور سے تخلیقی ادب کے تناظر میں ۔

پروفیسر نارنگ: جدیدیت کے زمانے میں قاری کو بری طرح نظر انداز کر دیا گیا تھا۔ایک سکڑتی ہوئی زبان میں یہ عمل خطرناک تھا۔آج کا اردو ادب ابہام و علامت کے چکّر سے نکل کر، اپنے قاری سے جڑنے کی کوشش میں ہے۔کہانی میں کہانی پن کی واپسی، سرل بیانیہ کی واپسی ہو رہی ہے۔ادھر اردو ادب میں ناول کی طرف توجہ بڑھی ہے، اور بہت سے ناول لکھے گئے ہیں ۔یہ سب کے سب اعلیٰ درجہ کے نہ سہی،لیکن ان میں سے بعض ناول قابلِ مطالعہ ضرور ہیں ۔

غزل بھی یکسانیت اور یک سُری دروں بینی سے نکل آئی ہے۔اب اس میں سماجی درد مندی کی کھلی فضا ہے۔تہذیبی تصور بھی روشن ہو رہا ہے۔نظموں کے ساتھ ساتھ بعض نئی مقامی و غیر مقامی اصناف پر بھی توجہ دی جا رہی ہے۔اس پس منظر میں انفارمیشن ٹیکنالوجی اور برقیاتی میڈیا میں جو انقلاب آیا ہے،اور صارفیت اور عالم کاری کی یلغار سے جو نئے چیلنج پیدا ہو رہے ہیں وہ بھی کم ہوش ربا نہیں ۔ ہندوستان اس وقت تاریخی اور تہذیبی اعتبار سے ایک پوسٹ کالونیل post colonial دور سے گزر رہا ہے۔اردو زبان و ادب بھی اسی عہد میں سانس لے رہے ہیں ۔مسائل گہرے اور پیچیدہ ہیں ، لیکن اتنا کہا جا سکتا ہے کہ اب پہلی سی یاسیت اور پژ مردگی نہیں ۔

تیسرا سوال: دنیا بھر میں جہاں جہاں اردو بولی اور پڑھی لکھی جاتی ہے وہاں وہاں آپ ہو آئے ہیں ۔ایشیا کے علاوہ یوروپ، امریکہ اور دوسرے برِ اعظموں کے بے شمار ملکوں میں جا کر مختلف عالمی اور بین الاقوامی زبانوں کے ادبی رجحانات کا مطالعہ آپ کر چکے ہیں ۔اس کی روشنی میں اردو ادب کو آپ کس سطح پر دیکھتے ہیں ؟

پروفیسر نارنگ: بعض لوگوں کو اس بات کو تسلیم کرنے میں دقّت ہوتی ہے، لیکن سچّائی یہ ہے کہ آزادی کے بعد کسی ہندوستانی زبان کا عالمی نقشہ اتنا نہیں بدلا جتنا اردو کا۔آج اردو ایک سے زیادہ ملکوں میں بولی اور سمجھی جاتی ہے۔یعنی نہ صرف پورے جنوبی ایشیاء میں اس کی حیثیت، رابطے کی زبان کی ہے، بلکہ خلیجی ممالک میں یعنی ابو ظہبی، دوبئی، مسقط، شارجہ، دوحہ قطر،بہت سی بستیوں میں اردو کا چلن وہاں کی اصلی زبان عربی سے کم نہیں ۔آزادی کے بعد کے برس، بر صغیر کے لوگوں کے پھیلاؤ کا زمانہ ہیں ، اور آبادی کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ اردو بھی باہر کی بستیوں میں پھیلی ہے، سکڑی ہندوستان میں ہے۔ پاکستان میں اردو قومی زبان ہے (اگرچہ ہنوز سرکاری زبان نہیں ) دونوں ملکوں میں اردو ایک سے زیادہ زبانوں کے ساتھ زندہ ہے۔ان زبانوں میں کوئی باہمی clash نہیں ۔اردو میں عجیب و غریب خوبی یہ ہے کہ دوسری زبانوں کے ساتھ نباہ کر کے چلتی ہے۔

آپ کو سن کر تعجب ہو گا کہ برطانیہ میں ’اے‘ لیول(10+2 ( اور ’او‘ لیول (ابتدائی College) کے امتحانات میں سات آٹھ ہزار طلباء اردو میں امتحان دیتے ہیں ۔ ناروے میں جو اسکینڈی نیویا کا حصہ ہے،راجدھانی اوسلو میں اردو بولنے والوں کی تعداد وہاں کی اصلی زبان نارویجین کے بعد دوسرے نمبر پر ہے۔وہاں کے اسکولی نظام میں اور یونیورسٹی میں اردو کو پارلیمنٹ کے قانون کے تحت پڑھایا جاتا ہے ۔ امریکہ اور کناڈا میں کوئی بڑا شہر ایسا نہیں جہاں اردو والے اپنے اخبار و رسائل نہ نکالتے ہوں ، یا اپنے تہذیبی جلسے نہ منعقد کرتے ہوں ، یا اردو کتابیں نہ پڑھتے ہوں ،یا گھروں میں اردو نہ بولتے ہوں ۔ جو لوگ سمجھتے ہیں کہ دو نسلوں کے بعد اردو بالکل ختم ہو جائے گی، وہ بھولتے ہیں کہ زبان فقط شعوری یا کاروباری عمل نہیں ، اس کا تعلق لا شعوری تقاضوں سے بھی ہوتا ہے جو مادی ضرورتوں سے ہٹ کر ہیں ۔ منظرنامہ بدلتا رہے گا لیکن اردو جیسی طاقتور زبان فنا نہیں ہوگی۔

آج بھی ہندوستان پاکستان میں سب برابر ہندوستانی فلمیں دیکھتے ہیں ، خوب خوب دیکھتے ہیں ، اپنے ملکوں کے گانے سنتے ہیں ، اپنے ویڈیو اپنے ڈی وی ڈیDVD اپنے کیسٹ۔ میں نہیں کہتا کہ نئی نسل پاپ میوزک یا جاز نہیں سنے گی۔ضرور سنے گی۔لیکن اس کے ساتھ یہ لوگ ہندوستانی موسیقی بھی سنتے ہیں ۔ولایت حسین کا سرود وادن، روی شنکر کا ستار، ذاکر حسین کا طبلہ بھی سنتے ہیں ۔ مہدی حسن، غلام علی، جگجیت سنگھ، فریدہ خانم اور عابدہ پروین کے دیوانے بھی ہیں ۔ یہ ساری چیزیں کس لسانی کلچر سے جڑی ہوئی ہیں ؟ ضرورت مایوسی کی نہیں ، ضرورت بدلے ہوئے منظر نامے کو سمجھنے کی ہے۔آج کی اردو، وہ ٹکسالی دہلوی یا لکھنوی اردو نہیں جو ساٹھ برس پہلے اشرافیہ کا طرّۂ امتیاز تھی۔آج کی اردو انگریزی سے بھی دو دو ہاتھ کرتی ہے اور برقیاتی میڈیا کی مار بھی سہتی ہے اور اس کے کام بھی آتی ہے۔کیوں کہ آج کی گائیکی کا کوئی تصور اردو شاعری کے بغیر نہیں ۔فلموں کے نغموں کا کوئی تصور اردو زبان کے بغیر نہیں جن کو لاکھوں کروڑوں ہندوستانی ،پاکستانی ،بنگلہ دیشی ،نیپالی ، افغانی ملکوں ملکوں سنتے اور لطف اندوز ہوتے ہیں ۔نیو یارک لندن یا ٹورانٹو میں کسی سے بات کیجئے، بچہ بچہ گلزار، شہریار، ندا فاضلی، احمد فراز اور جاوید اختر کو جانتا ہے۔ کیا ان کی زبان اردو کے علاوہ کچھ اور ہے؟

چوتھا سوال: ہندوستان کی تمام علاقائی زبانوں کے ادب اور ادیبوں سے اب آپ کا براہِ راست تعلق ہے۔ بلکہ ایک طرح سے ان کو ترقی اور فروغ دینے کی ذمہ داری بھی کچھ حد تک آپ کے اوپر ہے۔ان سبھی زبانوں کے ادب کی مجموعی صورتِ حال کیا ہے؟

پروفیسر نارنگ: آپ نے ٹھیک کہا۔ بے شک مجھے ہندوستان کی تمام زبانوں پر نظر رکھنا پڑ تی ہے۔ہمارا لسانی اور ادبی منظر نامہ عجیب و غریب رنگا رنگی اور بو قلمونی کا منظرنامہ ہے۔ عجیب بات ہے کہ جتنی زبانیں ہندوستان میں بولی جاتی ہیں ، اتنی دنیا کے کسی ایک ملک میں نہیں بولی جاتیں ۔ مغرب کے زیادہ تر ملک ’یک زبانی‘ ہیں ۔ یعنی انگلستان میں انگریزی،فرانس میں فرانسیسی،جرمنی میں جرمن۔ فقط ہسپانوی زبان کئی ملکوں میں بولی جاتی ہے۔اس اعتبار سے ہم دنیا بھر کے ملکوں میں سب سے متموّل ہیں ۔ چنانچہ ہماری زبانوں کے ادب کی تاریخیں بھی وقیع ہیں ۔اور ان میں بہت پائیداری اور گہرائی ہے۔بے شک سائنس اور ٹیکنا لوجی مغرب کی زبانوں میں زیادہ ہے۔ہمارے ہاں نہ ہونے کے برابر ہے۔لیکن زبانوں کا فلسفہ ،جو لفظ و معنی کے رشتے کی وجہ سے بلاغت و بیان کے مسائل، اور سب سے بڑھ کر شعریات و جمالیات کی جڑ ہے، ہماری زبانوں کی گہرائیوں اور جڑوں میں پیوست ہے۔ ہندوستانی زبانوں میں اُس وقت شاہکار لکھے جا رہے تھے جب مغربی زبانیں ابھی رینگ رہی تھیں ۔یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہندوستان کی بعض بڑی زبانوں میں اچھے سے اچھا ادب لکھا جا رہا ہے۔

مثلاً بنگالی، مراٹھی، کنّڑ اور ملیالم میں اعلیٰ درجہ کی تخلیقات لکھی جاتی ہیں ۔بنگالی بالعموم دوسری زبانوں کو گھاس نہیں ڈالتے لیکن اردو کا، بالخصوص غالب، منٹو، انتظار حسین کا دل سے احترام کرتے ہیں ۔ ادھر ہندوستانی نژاد مصنفین نے ایک اور کار نامہ انجام دیا ہے۔وہ یہ کہ انگریزی، جو کسی زمانے میں سامراج کی زبان تھی اس کو اس حد تک زیرِ دام لائے ہیں کہ انگریزی اہلِ زبان کو بھی بعض ہندوستانی مصنفین کے قلم کا لوہا ماننا پڑا۔ ابھی دو برس پہلے سرویدیا نائیپال کو نوبل پرائز سے سر فراز کیا گیا۔ سیاسی وجوہ تو ہر چیز میں شامل رہتی ہیں لیکن نائیپال معمولی درجہ کا ناول نگار نہیں ۔ رشدی کی لائقِ صد اعتراض کتاب کا معاملہ الگ ہے۔لیکن ’مڈنائٹ چلڈرن‘ کی داد ایک زمانے نے دی۔یہی معاملہ وکرم سیٹھ، اروندھتی رائے، امت چودھری، ششی تھارور، روہنٹن مستری، جھمپا لہری اور بیسیوں دوسرے انگریزی میں لکھنے والے ہندوستانیوں کا ہے۔

یہ سب ہندوستانی تخلیقی ذہن کا کرشمہ نہیں تو کیا ہے؟ ان سب کی جڑیں اپنی اپنی مادری زبانوں میں ہیں ، جو ہندوستانی زبانیں ہیں ۔ اور یہ سب کے سب زیادہ تر ہندوستانی معاشرے، ہندوستانی عوام اور ان کے مسائل کے بارے میں لکھتے ہیں ۔

لیکن ہندوستان کی زیادہ گہری موثٔر کھری اور بے لاگ تصویر، اُن مصنفین کے یہاں ملتی ہے، جن کے اظہار کا ذریعہ فقط اور فقط ہندوستانی زبانیں ہیں ۔مثلاً تگڑی شو شنکر پلّے،شو رام کارنتھ،گریش کرناڈ،یو آر اننت مورتی، وجے دان دیتھا، مہاشویتادیوی، کرشنا سوبتی، قرۃ العین حیدر، امرتا پریتم، وجے تندولکر، نرمل ورما، دلیپ کور ٹیوانہ اور ان کے پایہ کے مصنفین نے جو کچھ لکھا ہے، وہ انگریزی ادب کے مقابلے میں کسی طرح کم نہیں ۔ہر ادب کو اس کی اپنی شرط پر پڑھا جانا چاہئے۔ ترجمہ ادب کی شرط نہیں ۔ہر ادب کی تحسین کا پیمانہ اس کی اپنی زبان اپنی شعریات اور ادبی تہذیب ہوتی ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو ہندوستان کا ادب دنیا کے بہت سے ملکوں کے ادب سے ہٹ کر ہے اور آگے ہے، پیچھے ہرگز نہیں ۔

پانچواں سوال: ہماری علاقائی زبانوں میں ادبی سطح پر اختلاط کی کیا کیفیت ہے اور ساہتیہ اکادمی اس سلسلے میں کیا کر رہی ہے؟

پروفیسر نارنگ: ساہتیہ اکادمی ملک کا واحد ادارہ ہے جو تمام زبانوں کے ما بین ادبی پل کا کام دیتا ہے، اور باہمی افہام و تفہیم کے وسائل کو امکانی حد تک بروئے کار لاتا ہے۔امکانی حد تک میں نے اس لئے کہا کہ ہر زبان و ادب کی اپنی اپنی دنیا ہے، اپنا تشخص ہے، اپنی روایت ہے،اور شعریاتی عمدگی کے اپنے اپنے معیار ہیں جن میں کوئی ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا۔کرنا بھی نہیں چاہئے۔کیونکہ یہ زبانوں کی اپنی سالمیت اور آزادی کے منافی ہے۔البتّہ ایک زبان میں کیا کام ہو رہا ہے، اور ادب کے کون کون سے اعلیٰ نمونے سامنے آ رہے ہیں ، ان سے دوسری زبانوں کو ضرور آگاہ ہونا چاہئے۔یہ کام ساہتیہ اکادمی کئی سطحوں پر انجام دیتی ہے۔ اوّل کانفرنسیں ،سیمینار، سمپوزیم، میٹ دی آتھر، انترال، ملاقات، کتھا سَندھی، کوی سَندھی، مَن اینڈ بکس، میرے جھروکے سے، ادبی فورم وغیرہ پروگراموں کے ذریعہ مختلف زبانوں کے لکھنے والوں کو ایک دوسرے کو سننے اور سمجھنے کے مواقع فراہم کراتی ہے۔

دوسرے، سالانہ ادبی ایوارڈ۔ یاد رہے یہ ایوارڈ مجموعی خدمات پر نہیں الگ الگ زبانوں میں کتاب کی عمدگی پر دئے جاتے ہیں ۔اس لئے وسیع پیمانے پر ان کتابوں کا ترجمہ دوسری بارہ پندرہ زبانوں میں ہوتا ہے۔ گویا سو سے زیادہ بہترین کتابیں ایک سے دوسری زبان میں ہر برس منتقل ہوتی ہیں ۔

تیسرے، ہر سال بہترین تراجم پر بھی ایوارڈ دئے جاتے ہیں ۔ ان سے بھی زبانوں کے باہمی رشتے مضبوط ہوتے ہیں ۔ چوتھے یہ کہ اردو، ہندی، بنگالی، کشمیری، مراٹھی، تمل، تیلگو کو ملا کر تقریباً 24 زبانوں میں ساہتیہ اکادمی ہر سال تین سو سے زیادہ کتابیں شائع کرتی ہے۔ یعنی ہر اگلے دن تقریباً ایک نئی کتاب (کسی نہ کسی ہندوستانی زبان کی) ساہتیہ اکادمی کے ذریعہ منظرِ عام پر آتی ہے۔

اس سے پورا ہندوستانی ادب تو دولت مند ہوتا ہی ہے، زبانوں کو بھی ایک دوسرے سے قریب آنے کے مواقع ملتے ہیں ۔ واضح رہے جہاں آگہی ہو گی، وہاں مقابلے کی آرزو مندی بھی ہو گی۔ مقابلے اور قدر افزائی و تحسین کی خواہش ادیب کا پیدائشی حق ہے۔ اس سے ادب آگے بڑھتا ہے۔ یہاں اس وضاحت کی ضرورت ہے کہ ساہتیہ اکادمی کا رول فقط اتنا ہونا چاہئے کہ قدر افزائی کرے۔ سخن فہمی میں مدد دے۔تبادلۂ خیال کے مواقع فراہم کرے۔ ہدایت نامے جاری کرنا، فارمولے وضع کرنا، یا حکم نامے نافذ کرنا (سرکاری سیاسی یا ادبی) یہ ہمارا کام نہیں ۔

چھٹا سوال: نئے دور میں ادب بہت کم پڑھا جا رہا ہے اور پرائیویٹ الیکٹرانک میڈیا نے تو ادب کو پوری طرح نظر انداز ہی کر دیا ہے۔اس کی وجہ آپ کے خیال میں کیا ہے، اور اس صورتِ حال کو کیسے بدلا جا سکتا ہے؟

پروفیسر نارنگ: آپ نے دکھتی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔یہ بات بڑی حد تک صحیح ہے کہ برقیاتی میڈیا کی یلغار سے ادب کو بالکل نئے قسم کے چیلنج کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔فرانسیسی مفکر لیو تار کا کہنا ہے کہ پوسٹ ماڈرن post-modern زمانے میں پورا معاشرہ spectacle تماشا سوسائٹی میں بدل رہا ہے۔ یعنی ہم سب ’تماشہ سماج‘ کا حصہ بنتے جا رہے ہیں ۔اچھائی اور برائی کے تمام معیار، کیا پینا ہے، کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے، کیا ناچنا ہے، کیا گانا ہے، اور تو اور کیا بولنا ہے، کیا لکھنا ہے، کیا پڑھنا ہے، یہ سب آپ یا میں نہیں ، یا ہمارے بزرگ نہیں بلکہ برقیاتی اسکرین طے کرے گی۔انسان کے ذہن پر برقیاتی تصویر کا ، خواہ فلم کی ہو، کمپیوٹر کی، ٹی وی کی، ویڈیو کی یا ڈی وی ڈی کی، گہرا اثر مرتسم ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسی نمائشی زندگی کا عکس پیش کرتی ہے، جو فقط make beliefہے۔ اصل سے اس کی نقل کہیں زیادہ جاذبِ نظر اور موثٔر ہے۔ ذہنوں کو گرفت میں لینے والی امیج جو خود در اصل کذب ہے ، پوری شخصیت میں اس طرح جذب ہو جاتی ہے کہ پورے برتاؤ کا حصہ بن جاتی ہے۔ اور انسان اسی عکسی زندگی میں ڈھلتا چلا جا رہا ہے۔گاؤں ،قریہ، قصبہ، دیہات، سب ایک گلوبل ویلیج میں بدلتے جاتے ہیں ۔ یہی قدریں صارفیت کے بل پر اور کھلی منڈی کی طاقت سے پوری انسانیت کو زیر و زبر کر رہی ہیں ۔

لیکن تصویر کا دوسرا رخ بھی ہے۔ وہ بھی نظر میں رکھنا چاہئے۔بے شک روز مرہ زندگی میں بنیادی تبدیلیاں آ رہی ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں ، کلچر کی اساس بدل رہی ہے، کمرشیل قدروں کے دباؤ کی وجہ سے ادب پسِ پشت جا پڑا ہے۔ہر طرف نمائشی چیزوں کی ریل پیل ہے۔ ایسے میں کتاب کے لئے وقت بہت ہی کم ہے۔ بچّے بھی ، پہلے جتنا وقت کتاب کے ساتھ گزارتے تھے اب اس کا بڑا حصہ کمپیوٹر کے ساتھ گزارتے ہیں ۔انسائکلوپیڈیا، ڈکشنری، پراجیکٹ، گرامر، ہجّے، معلومات، سب کچھ انٹر نیٹ کے ذریعہ فراہم ہو جاتا ہے۔کتاب کی شکل بدل گئی ہے۔لیکن کیا برقیاتی کتاب کے پیچھے بھی کتاب نہیں ہے؟ دوسرے لفظوں میں کتاب کی نوعیت بدلی ہے کتاب نہیں ۔حرف آج بھی حرف ہے۔ شبد آج بھی شبد ہے۔کتاب پھر بھی کتاب ہے۔ کمپیوٹر یا ٹی وی کے لئے تو بجلی چاہئے۔ لیکن کتاب اس نوع کے مشینی وسائل سے بے نیاز ہے۔ کتاب میں جو استقامت اور دوامیت ہے، وہ برقیاتی میڈیا میں کہاں ؟ برقیاتی کتاب ایک چھلاوا ہے، ایک عکس بھر، جبکہ اصل کتاب ہمیشہ کی ساتھی ہے۔

کتاب کو ہم سینے پر رکھ کرسو جاتے ہیں ، لیٹ کر بھی پڑھ لیتے ہیں ، بس میں جاتے ہوئے، ریل میں بیٹھے ہوئے، ہوائی جہاز میں اُڑتے ہوئے، پیڑ کی چھاؤں میں ، ندی کے کنارے، کہیں بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ بیشک کتاب جو ہمیشہ انقلاب لاتی رہی اب خود ایک انقلاب کی زد میں ہے۔ لیکن یہ انقلاب پہلی بار نہیں آیا ۔ انسانی تہذیب کے سفر میں کتاب نے اس سے پہلے بھی کئی انقلاب جھیلے ہیں اور زندہ رہی ہے۔ تو اب بھی اس نئے انقلاب کے ساتھ کتاب زندہ رہے گی۔ نہ صرف اس انقلاب کو سیراب کرے گی، بلکہ خود کو بھی سیراب کرے گی۔ یہ بھی ایک جدلیاتی صورتِ حال ہے۔ کتاب زندہ رہے گی تو ادب بھی زندہ رہے گا۔ دیکھا جائے تو فلموں کی ترقی یا سیریل کی یا برقیاتی پروگراموں کی، ہر چیز قائم ہے تحریر پر اور ’تحریر شبد‘ ہے۔ ایسی کوئی صورتِ حال انسانی تہذیب میں ہنوز سامنے نہیں آئی جو شبد کی شکتی کو بدل دے۔

ساتواں سوال: ہندوستان میں اردو زبان و ادب کے مستقبل کے بارے میں بڑی مایوس کن باتیں کی جاتی ہیں ۔آپ کا اس سلسلہ میں کیا کہنا ہے؟

پروفیسر نارنگ: اس سے پہلے آپ کے سوالات کے بارے میں جو کچھ عرض کر آیا ہوں ، اس سے کچھ تو اندازہ ہوا ہوگا کہ میرا ذہن تصویر کا فقط ایک رخ نہیں دیکھتا۔ صورتِ حال سادہ نہیں ۔ یہ اچھی خاصی paradoxicalہے۔ یہ بڑی سادہ لوحی ہو گی اگر میں یہ کہوں کہ ہندوستان میں اردو زبان و ادب کو مشکلات در پیش نہیں ۔ لیکن یہ مشکلات ہماری فرقہ وارانہ سیاست اور تاریخ نے پیدا کی ہیں ۔ اور اس تاریخ کے بنانے والوں میں خود ہم بھی شریک ہیں ۔پورا جغرافیہ بدل گیا ہے۔ تاریخ بدل گئی ہے۔ پوسٹ ماڈرن صورتِ حال دوسری ہے۔ پچھڑی ہوئی زبانیں انگڑائی لے کر بیدار ہو چکی ہیں ۔ ابتدائی تعلیمی سطح پر شمالی ہندوستان میں اردو کو شدید دقّتوں کا سامنا ہے۔لیکن دوسری طرف جنوبی ہندوستان کی ریاستوں ، بالخصوص مہاراشٹر، کرناٹک اور آندھر پردیش میں ، نہ صرف یہ کہ پریشانیاں کم ہیں بلکہ عمومی تہذیبی اور تعلیمی نقشے میں ،لسانی اقلیتیں دوسروں کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں ۔ گویا ضرورت ہو ش مندی، لگن، کمٹمنٹ اور حوصلہ مندی کی ہے، نہ کہ مایوسی اور پسپائی کی کہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ جائیں اور بدلتے ہوئے حالات کو نہ سمجھیں ۔

ادھر بابری مسجد سے لے کر گجرات کے خون خرابے تک، انتہا پسندیوں کی اور بے انصافیوں کی جتنی مثالیں ہیں ، ان کے خلاف لسانی اقلیتوں سے زیادہ، اکثریتی پریس اور حقوقِ انسانی کمیشن اور ایسے دوسرے اداروں نے جی جان سے آواز اٹھائی جو ان کا فرض بھی ہے۔ گویا کہ قدروں کی افرا تفری کی اس فضا میں بھی ہندوستان کی امن پسند روادار روح کہیں نہ کہیں زندہ ہے۔ اور اپنا کردار ادا کرنے کے لئے مضطرب بھی نظر آتی ہے۔ کیا یہ معمولی بات ہے کہ وہی سیاسی پارٹیاں جو خاص طرح کے فرقہ وارانہ ایجنڈے کے بل پر طاقت میں آتی ہیں ، اور پھر درجنوں دوسری پارٹیوں کے ساتھ مل کر مخلوط سرکاریں بناتی ہے ( مخلوط سرکاروں سے اب کوئی مفر نہیں ) وہی بعد میں اپنے فرقہ وارانہ ایجنڈے کو طاقِ نسیاں پر دھر دینے پر مجبور ہوتی ہیں ۔ یہ ہندوستان کے تکثیری سماج کی روادارانہ سائیکی کا کرشمہ نہیں تو کیا ہے؟

میں اردو کے معاملے میں نوحہ گر کو ساتھ رکھنے کا اس لئے قائل نہیں ہوں کہ ہندوستانی اکثریت کی روادارانہ جمہوری تہذیب میں آج بھی میرا ’وشواس‘ نہیں ٹوٹا۔ افسوس خود اردو والے اس سبق کو بھول گئے ہیں کہ70 فیصد اردو ہندی ہے۔ اگر ہندی کو زندہ رہنا ہے تو وہ اردو کے بغیر ممکن نہیں ۔ کیونکہ جس طرح ہندی اردو کی طاقت ہے، کھڑی بولی(ہندوستانی) اردو بھی ہندی کی سب سے بڑی طاقت ہے۔ جس طرح ہندی ’ہند آریائی خاندان‘ کی مر کزی زبان ہے، اردو بھی ’ہند آریائی خاندان‘ کی مرکزی زبان ہے جس کی پشت پر آٹھ سو سال کا لسانی اور تہذیبی ارتقا ہے اور صوفیوں سنتوں اور بھگتوں کا سر مایہ ہے۔ تاریخ کی موجودہ جھنجھلاہٹ آٹھ سو سال کو مٹانے کی کوشش میں ہے۔ لیکن اس کو مٹا نہیں سکتی۔ میں موجودہ دقتوں کو abberrationکے طور پر دیکھتا ہوں ۔ شاید میری آنکھیں نہ دیکھ سکیں لیکن آئندہ نسلیں اور آئندہ تاریخ اسے ضرور دیکھے گی کہ بدلی ہوئی صورتِ حال میں اگر ہندوستان کو ایک جمہوریت رہنا ہے تو اردو زبان و ادب بھی اس میں فرقہ وارانہ نہیں بلکہ لبرل، سیکولر اور روشن جمالیاتی کردار ادا کرتے رہیں گےOO