Sunday, June 7, 2009

سجّاد ظہیر کا نظریۂ ادب

خطاب/سجّاد ظہیر کا نظریۂ ادب

فیض اٹھایا جدیدیت نے

انتظار حسین


ہمارے بزرگ خط لکھتے ہوئے بالعموم اس فقرے پر اسے تمام کرتے تھے۔ برخوردار اِس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ اور اپنی خیریت و حالات تفصیل سے لکھ۔

خطوں میں لکھا جانے والا یہ رسمی فقرہ اس وقت جب میں سجاد ظہیر کی تحریریں پڑھ رہا ہوں بہت بامعنی نظر آ رہا ہے۔ یہاں نقشہ یہ ہے کہ تھوڑا ناول افسانہ، تھوڑی شاعری، تھوڑی تنقید اور بہت سا سیاسی عمل، ایک آدرش کے لئے جو ایک نظرئیے کی دین ہے لمبی جدوجہد۔ مگر مجھے اس تھوڑے سے غرض ہے۔ اس تھوڑے میں بھی وہ جو زیادہ تھوڑا ہے یعنی افسانے اورناول۔ ہے تو یہ بہت تھوڑا مگر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ تھوڑا بھی بہت ہے۔ ادب میں تو لاکرتے ہیں ، گنا نہیں کرتے۔ مگر مدعی سست گواہ چست۔ میں ابھی اس احساس کے لئے استدلال تلاش کر رہا تھا کہ ادھر سجاد ظہیر بیچ میں بول پڑے ہیں ’ لندن کی ایک رات‘ کو پیش کرتے ہوئے انھوں نے پیش لفظ میں یہ سطریں لکھی ہیں۔

’’یورپ میں کئی برس طالب علم کی حیثیت سے رہ چکنے کے بعد اور تعلیم ختم کرنے کے بعد، چلتے وقت پیرس میں بیٹھ کر چند مخصوص جذباتی کشمکش سے متاثر ہو کر سو ڈیڑھ سو صفحے لکھ دینا اور بات ہے اور ہندوستان میں ڈھائی سال مزدوروں ، کسانوں کی انقلابی تحریک میں شریک ہو کر کروڑوں انسانوں کے ساتھ سانس لینا اور ان کے دل کی دھڑکن سننا دوسری چیز ہے۔ میں اس قسم کی کتاب اب نہیں لکھ سکتا اور نہ اس کا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ‘‘

سن لیا آپ نے، وہی مضمون ہوا کہ بکری نے دودھ دیا... خیر جانے دیں اس بات کو۔ کوئی پروا نہیں۔ مدعی سست ہوا کرے خاکسار گواہ اب بھی چست ہے۔ لارنس کا کہا مجھے یاد آیا اور میں نے اسے گرہ میں باندھ لیا۔ اس نے کہہ رکھا ہے کہ کہانی کار کی بات مت سنو۔ اس کی کہانی جو کہتی ہے اس پر کان دھرو۔ کہانی کہنے والوں کا کیا اعتبار۔ لیوٹا سٹائی پر جب مذہب کا جنون سوار ہوا تو اس نے اپنے سارے شاہ کاروں کو فضولیات قرار دے دیا۔ کافکا پر تو کسی مذہب کسی نظرئیے کا جنون سوار نہیں ہوا تھا۔ اس نے اپنے جنون میں کچھ کہانیاں کچھ ناول لکھے۔ جنون کی جب دوسری رو آئی تو دوست کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد ان تحریروں کو آگ میں جھونک دینا۔

لیکن افسانہ ناول پڑھنے والوں نے ان دونوں کی بات سنی ان سنی کردی۔ میں نے بھی سجاد ظہیر کی یہ بات ایک کان سنی، دوسرے کان اڑادی۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ اچھا شعر، اچھا افسانہ، اچھا ناول تخلیق ہونے کے بعد اپنے خالق کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنا مفسر آپ ہوتا ہے۔ مصنف کی تعبیر و توجیہہ کو قبول نہیں کرتا۔

تو اس ناول اور ان چند کہانیوں کے حوالے سے جو ’انگارے‘ میں شامل ہیں میں اپنے اس احساس کا ذکر کر رہا تھا کہ یہ تحریریں تھوڑی ہوتے ہوئے بھی بہت نظر آ رہی تھیں۔ مگر کس طرح۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ سجاد ظہیر کے مداح نقادوں نے جو لکھا ہے اس سے بھی مجھے کوئی مدد نہیں ملی۔ آخر ایک افسانہ نگار ہی نے میرے مسئلہ کو حل کیا۔ عصمت چغتائی نے سجاد ظہیر کی شخصیت پر لکھتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی اک گفتگو نقل کی ہے۔ یہ سجاد ظہیر کی کسرنفسی تھی یا دکھ بھرا احساس کہ ادب میں وہ کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکے۔ عصمت اس پر جھنجھلاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’آپ نہیں جانتے۔ مگر آپ نے کچھ دروازے کھولے ہیں ، کچھ کھڑکیاں توڑی ہیں۔ راستے دکھائے ہیں۔ کیا یہ تخلیق نہیں ہے۔ ‘‘

لیجئے اب میری سمجھ میں بات آ گئی۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تک ہمارے ادب میں ، خاص طور پر ناول و افسانے میں کچھ راستے متعین ہو گئے تھے۔ پریم چند تک آتے آتے یہ طے کیا گیا کہ ناول کی کیا صورت ہوگی۔ اور افسانے کا کیا سانچہ ہوگا۔ مثلاً مختصر افسانے کے بارے میں یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی تھی کہ اس کی ایک ابتدا ہوتی ہے اور ایک پلاٹ ہوتا ہے۔ پھر کہانی کا ارتقا۔ پھر کلائمکس آتا ہے، اور ایک سسپنس اور پھر ایسا جچا تلا انجام کہ قاری چونک اٹھے۔ افسانے کی جب یہ تعریف اتفاق رائے سے طے ہو گئی تو پھر دروازہ بند کر دیا گیا کہ کوئی اِدھر اُدھر نہ بھٹکے۔ اس تعریف سے جو تحریر تجاوز کرے گی وہ افسانہ نہیں ہوگی۔ کھڑکی بند دروازہ مقفل۔

جب یہ سب کچھ طے ہو چکا تو افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہوا۔ ’انگارے‘ کے نام سے۔ اس میں سجاد ظہیر کی پانچ کہانیاں شامل تھیں۔ یہ کہانیاں کس رنگ کی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے اس کہانی سے جس کا عنوان ہے ’نیند نہیں آتی۔

’’گرمی کی تکلیف تو بہ توبہ، ارے توبہ۔ مچھروں کے مارے ناک میں دم ہے۔ نیند حرام ہو گئی۔ پن پن۔ چٹ۔ وہ مارا۔ آخر یہ کم بخت ٹھیک کان کے پاس آکے کیوں بھنبھناتے ہیں۔ خدا کرے قیامت کے دن مچھر نہ ہوں۔ مگر کیا ٹھیک، کچھ ٹھیک نہیں۔ آخر مچھر اور کھٹمل اس دنیا میں خدا نے کس مصلحت سے پیدا کئے۔ معلوم نہیں پیغمبروں کو کھٹمل اور مچھر کاٹتے ہیں یا نہیں ...کچھ ٹھیک نہیں ، کچھ ٹھیک نہیں۔ آپ کا نام کیا ہے، میرا کیا نام ہے، کچھ ٹھیک نہیں۔ واہ واہ واہ مصلحت خداوندی، خداوندی اور رندی اور بھَنڈی۔ غلط، بھِن ڈی ہے۔ بھنڈی تھوڑا ہی ہے۔ میاں اکبر اتنا بھی حد سے نہ باہر نکل چلئے۔ اور کہا ہے۔ بحر رجز میں ڈال کے بھرِ رمل چلے۔ بحر رمل چلے۔ خوب۔ وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے۔ انگور کھٹے۔ آپ کو کھٹاس پسند ہے۔ پسند، پسند سے کیا ہوتا ہے؟چیز ہاتھ بھی تو لگے۔ مجھے گھوڑا گاڑی پسند ہے۔ مگر قریب پہنچا نہیں کہ وہ دُلتّی پڑتی ہے کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ اور مجھے کیا پسند ہے۔ میری جان۔ مگر تم تو میری جان سے زیادہ عزیز ہو.....چلو ہٹو بس رہنے بھی دو۔ تمہاری میٹھی میٹھی باتوں کا مزہ میں خوب چکھ چکی ہوں ....کیوں ، کیا ہوا۔ کیا.....‘‘

کیوں کیسی کہانی ہے۔ یہاں آپ کو کوئی ربط، کوئی تسلسل نظر آتا ہے۔ ساری کہانی اسی طرح چلتی ہے۔ نہ کوئی پلاٹ نہ کوئی کہانی۔ نہ کوئی کلائمکس نہ سسپنس۔ کہانی اسی طرح ختم ہوتی ہے۔

’’پیٹ میں آنتیں قل ہواﷲ پڑھ رہی ہیں اور آپ ہیں کہ آزادی کے چکر میں ہیں۔ نہ مجھے موت پسند ہے نہ آزادی۔ کوئی میرا پیٹ بھر دے۔ پن پن پن۔ چٹ، ہت ترے مچھر کی۔ نن ٹن ٹن۔ ٹن ٹن... ‘‘

یہ کتاب چھپتے ہی ضبط ہو گئی۔ لیکن اگر ضبط نہ ہوتی تو پھر بھی ہنگامہ کھڑا ہونا تھا۔ وہ ہنگامہ خود دنیائے ادب کے اندر کھڑا ہوتا۔ اعتراض کھڑا ہوتا کہ افسانے کے نام پر یہ کیسی بے ربط بے ہنگم تحریریں لکھی جا رہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تک ہماری دنیائے ادب میں یہ خبر نہیں پہنچی تھی کہ ادھر مغربی دنیا میں جہاں سے ہم نے یہ اصناف مستعار لی تھیں ، ناول اور افسانے نے کیا کروٹ بدلی ہے۔ اور یہ شعور کی رو کیا چیز ہے اور آزاد تلازمہ کس چڑیا کا نام ہے۔ اور یہ جوائس اور ہرزست وغیرہ کون لوگ ہیں۔

البتہ ناول میں سجاد ظہیر اس انتہا پر نہیں گئے ہیں جہاں وہ اپنی کہانیوں میں نظر آتے ہیں۔ کہانی ’پھر یہ ہنگامہ‘ پھر اس سے بھی بڑھ کر ’نیند نہیں آتی‘ جہاں خارج کی سطح ہے کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی ہے۔ ابال اٹھ رہے ہیں۔ انمل بے جوڑ تصویریں۔ کبھی ایک خیال سے جڑ اہوا دوسرا خیال۔ کبھی لمبی زقند۔ ایک بات ایران کی تو دوسری توران کی۔ مگر ناول میں کڑی سے کڑی ملی نظر آئے گی۔ پھر بھی یہ ناول روایتی ناول سے یکسر مختلف ہے۔ یعنی آپ اسے ’امراؤ جان ادا‘ اور ’گؤ دان‘ کے تسلسل میں نہیں دیکھ سکتے۔ اس سانچہ سے انحراف ہی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بیشک یہاں خارج کی سطح پربھی کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ مگر خارج کی سطح سے زیادہ باطن کی سطح پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ اس لئے مکالمہ جتنا ہے اس سے بڑھ کر خود کلامی ہے:

دردنِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا

چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے

پچھلے ناول اور کہانی کو درونِ خانہ ہنگاموں کی کتنی خبر تھی۔ وہ تو اب آ کر پتہ چلا کہ اصل آدمی تو اپنے اندر ہوتا ہے۔ باہر وہ کتنا آتا ہے۔

تو لیجئے دروازہ ٹوٹ گیا، کھڑکی کھل گئی۔ کہانی پر کچھ نئے دروازے کھل گئے، نیا رستہ نکل آیا۔ مگر سجاد ظہیر نے تو پھر یہ رستہ ہی چھوڑ دیا۔ دروازہ توڑ کر اور طرف نکل گئے۔ اُس سے فیض دوسروں نے اٹھایا۔ بھلا کس نے۔ قاعدے سے تو اس سے ترقی پسند افسانے کو فیض یاب ہونا چاہئے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب میں یہ کہانیاں پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے کچھ کہانیاں یاد آئیں۔ حرام جادی، چائے کی پیالی، کالج سے گھر تک۔ مگر یہ تو محمد حسن عسکری کی کہانیاں ہیں جو ترقی پسند تحریک کے سخت مخالف تھے۔ عجب ہوا کہ سجاد ظہیر نے بیسویں صدی کے مغربی فکشن کے دریافت کردہ جس نئے طرز اظہار کا اردو افسانے میں ڈول ڈالا تھا وہ کرشن چندر کے افسانے کو چھوتا ہوا باقی ترقی پسند افسانے سے کنی کاٹ کر نکل گیا۔ پھر وہ رجعت پسندوں کے یہاں پر وان چڑھا۔ سب سے بڑھ کر محمد حسن عسکری کے یہاں۔

مگر ٹھہرئیے۔ بیچ میں یہ جو کرشن چندر کا حوالہ آگیا ہے اس کی بھی وضاحت ہو جانی چاہئے۔ اور یہاں مجھے عسکری صاحب ہی کے ایک بیان کا حوالہ دینا پڑے گا۔ ’دو فرلانگ لمبی سڑک‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ افسانہ اردو ادب میں ایٹم بم کی طرح آیا تھا.....‘‘آگے چل کر کہتے ہیں کہ ’’یہ افسانہ میری ذہنی زندگی کا ایک واقعہ ہے...ادب پڑھنے اور ادب لکھنے کی فوری تحریک مجھے کرشن چندر کے اس افسانے سے ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ اگر میں نے یہ افسانہ نہ پڑھا ہوتا تو میں کبھی مارسل پروست اور جوائس کو بھی نہ پڑھتا.....یہ افسانہ پڑھنے کے بعد افسانہ نگاری کی نہیں بلکہ تجربے کی ایسی ہئیت مجھے مل گئی کہ میں نے مہینے بھر کے اندر اپنا پہلا افسانہ لکھ لیا۔ ’کالج سے گھر تک‘۔

لیجئے میں تو عسکری صاحب کے افسانوں کا رشتہ سجاد ظہیر کی کہانی سے جوڑ رہا تھا لیکن انھوں نے اپنے فیض کا منبع کرشن چندر کی کہانی کو قرار دے ڈالا۔ خیر اس سے پہلے میں ایک بات کرشن چندر کے متعلق اور کہتا چلوں۔ ہندوستان میں بعض نقاد کچھ اس طرح سوچتے نظر آتے ہیں کہ منٹو اور بیدی کی عظمت اسی طرح قائم رہ سکتی ہے کہ پہلے کرشن چندر کے افسانے کو خاک چٹادی جائے۔ بہرحال کرشن سے ایک امتیاز تو نہیں چھینا جا سکتا۔ امتیاز ایسا ہے یعنی بیسویں صدی کے انقلاب انگیز طرز اظہار کو اپنانے اور اردو میں متعارف کرانے کا امتیاز جس میں اس کا کوئی ہم سر افسانہ نگار اس کا شریک اور حریف نہیں ہے۔ باقی یہ نقاد اپنے طوطا مینا اڑاتے رہیں۔

اب میں اپنی پچھلی بات پر آتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ کیا عسکری صاحب پہلے دھماکہ سے بے خبر تھے۔ وہ دھماکہ جو سجاد ظہیرنے کیا تھا۔ شاید صورت یہ تھی کہ وہ پہلا دھماکہ تو ’انگارے ‘کے دھماکہ کے ساتھ غتر بوت ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ سجاد ظہیر نے بھی اپنے اس کام کو فراموش کر دیا۔ جو افسانہ پڑھا ہی نہیں گیا۔ آگے چل کر جب کرشن چندر نے ’دو فرلانگ لمبی سڑک‘ لکھا تو دھماکہ کی گونج دور دور تک گئی اور اب اردو افسانے میں واقعی ایک انقلاب آیا۔ مگر پھر سجاد ظہیر اور کرشن چندر سے آگے جا کر اس انقلاب کی خبر ہمیں عسکری صاحب کی کہانیوں سے ملی۔ پتہ چلا کہ ادب میں کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ نظریاتی اختلافات ایک طرف دھرے رہ جاتے ہیں اور لکھنے والے کسی اور سطح سے، کہہ لیجئے کہ تخلیقی سطح سے ملتے اور ایک دوسرے سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ بھی غور طلب بات ہے کہ سجاد ظہیر نے افسانے میں اپنی ترقی پسند فکر کے اظہار کے لئے اس سماجی حقیقت نگاری سے کنارہ کر کے جس نے گورکی کے افسانہ و ناول کو رونق بخشی تھی، جوائسین ا سکول کے دریافت کردہ طرزِ اظہار سے استفادہ کیا۔ اسی روِش کو انگارے کے دوسرے اہم افسانہ نگار پروفیسر احمد علی نے بھی اپنایا۔ بلکہ انھوں نے تو بطور خاص کافکا سے فیض حاصل کرنے کی ٹھانی۔ یہ بھی شاید دروازہ توڑنے اور کھڑکی کھولنے کا عمل تھا۔ جتانا یہ مقصود تھا کہ ترقی پسند فکر اپنے اظہار کے لئے کسی ایک مخصوص طرز اظہار کی محتاج نہیں ہے۔ کوئی طرز اظہار بنفسہٖ نہ تو ترقی پسند ہوتا ہے نہ رجعت پسند ہوتا ہے۔ یہ تو لکھنے والے کو اپنی افتاد طبع اور اپنے تجربے کے حساب سے جانچنا چاہئے کہ اظہار کی کو ن سی طرز کون سی تکنیک اسے زیادہ راس آئے گی۔

سجاد ظہیر اپنے افسانے کو ادھورا چھوڑ کر پارٹی کے کام میں مستغرق ہو گئے۔ مگر دروازہ توڑنے کے شوق نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ مجھے یاد آر ہا ہے کہ اب سے اُدھر جب لاہور اور کراچی میں چند نئے شاعروں اور شاعرات نے نثری نظم کا علم بلند کیا تھا تو کتنے سینیر نقادوں اور شاعروں نے جو نظم آزاد کو قبول کر چکے تھے اسے شاعری ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ اور ادھر اس گروپ میں مختلف شاعر یہ دعوے کر رہے تھے کہ نثری نظم کے موجد ہم ہیں۔ کسی باخبر نے اطلاع دی کہ بابا ہندوستان میں ایک سینیر ادیب پہلے ہی نثری نظمیں لکھ چکا ہے اور اس کا مجموعہ ’پگھلا نیلم‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ تو لیجئے سجاد ظہیر نے شاعری کی طرف رخ کیا تو یہاں بھی ایک دروازہ توڑ ڈالا۔ بتایا کہ شعری اظہار میں نظمِ آزاد حرف آخر نہیں ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں !

میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ جو فکشن انھوں نے لکھا اس کی ادبی قدر و قیمت کتنی ہے۔ آیا ان کی صرف تاریخی اہمیت ہے یا اس سے بڑھ کر تخلیقی حساب سے بھی رتبہ بہت بلند ہے۔ میں نے عصمت چغتائی سے اشارہ لے کر صرف یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ اس بزرگ نے ہمارے ادب میں چند دروازے توڑے ہیں ، چند کھڑکیاں کھولی ہیں۔ اگر وہ اپنے دریافت کردہ نئے رستے پر زیادہ نہیں چلے تو یہ ان کی مرضی۔ مگر شاید ادب کے واسطے سے ان کے حصے میں صرف دروازے توڑنے ہی کی سعادت آئی تھی۔ اور یہ کوئی چھوٹی سعادت نہیں ہے۔ ہمارے بیچ کتنے ایسے ادیب ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے کسی نئے طرز کی داغ بیل ڈالی یا کسی نئی روایت کی بنیاد رکھی۔ ہاں انھوں نے اپنا ہی کھڑا کیا ہوا جو ایک دروازہ توڑا اسے تو میں بھول ہی چلا تھا۔ انھوں نے تھوڑی تنقید بھی تو لکھی ہے۔ ان میں ایک بہت اہم تحریر وہ ہے جو ’ذکرِ حافظ‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا محرک ہے وہ فضول بیان جو ظ۔ انصاری نے غزل کی صنف کے خلاف اور حافظ کی شاعری کی مذمت میں جاری کیا تھا۔

یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے ظ۔ انصاری پر بہت ترس آیا۔ وہ بیچارے نا کردہ گناہ مارے گئے۔ انھوں نے تو وہی باتیں حافظ کے حوالے سے دہرائی تھیں جو نقاد غزل اور کلاسیلی غزل گویوں کے متعلق کہتے چلے آرہے تھے۔

ظ.انصاری نے حافظ پر جو محاکمہ کیا تھا اس پر سجاد ظہیر نے اپنے اس رفیق کی سخت گرفت کی۔ کہا کہ حافظ کی شاعری پر انغعالی تصور، فراریت، داخلیت اور لذت پرستی کا الزام لگا کر اپنے تہذیبی ورثے کے اس انمول رتن کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ پھر سمجھایا کہ عزیز ،شاعری کو اس طرح سے نہیں دیکھا پرکھا کرتے۔ ’’حافظ کی ساری شاعری سے اس کا پیغام نچوڑ لینے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ غیر ادبی اور غیر علمی ہے۔ ‘‘دوسرے یہ کہ ’’مادی سماجی حالات اور فنی تخلیق میں جو رشتہ ہے اُسے غلط اور میکانکی طریقے سے سمجھا گیا ہے‘‘۔

مگر صاحبو! انصاف شرط ہے۔ ظ.انصاری نے اپنے مغز سے اتار کر تو کوئی بات نہیں کی تھی۔ ترقی پسند نقاد جو کہتے چلے آئے تھے وہی سبق انھوں نے حافظ کے حوالے سے دہرادیا۔ اگر شاعری کو اس طرح جانچنے کا طریقہ غلط ہے تو اکیلے ظ۔ انصاری ہی کیوں پکڑے جاتیں۔ مگر شاید سجاد ظہیر کا مقصود بھی یہی ہو کہ میں ظ۔ انصاری سے مخاطب ہوں مگر پڑوسن تو بھی سنتی رہیو۔ مطلب یہ کہ دوسرے ترقی پسند نقاد بھی یہ بات کان کھول کر سن لیں۔

تو لیجئے سجاد ظہیر نے یہاں بھی ایک دروازہ توڑ ڈالا۔ اور یہ تو وہ دروازہ تھا جو خود ان کی تحریک نے تعمیر کیا تھا۔ مگر مجھے افسوس بھی ہوا۔ سجاد ظہیر نے ذرا دیر کر دی۔ کہیں تحریک کی ابتدا ہی میں ترقی پسند تنقید کو یہ ہدایت مل جاتی تو اس کے حق میں یہ کتنا اچھا ہوتا مگر اس وقت تو دریا چڑھا ہوا تھا۔ کیا عجب تھا کہ جوشِ انقلاب میں کوئی جیالہ یہ اعلان کر دیتا کہ لو، بنّے بھائی بھی رجعت پسند ہو گئے۔ oo

نئی دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں ’ساہتیہ اکادمی‘ کی جانب سے ’سجاد ظہیر صدی‘ کی تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا