Monday, June 8, 2009

درد جو زندگی بنا۔۔ امرتا پریتم

درد جو زندگی بنا

امرتا پریتم کی نظمیں
ترجمہ: اسما سلیم


ایک درد تھا

ایک درد تھا
جو سگریٹ کی طرح
میں نے چپ چاپ پیا ہے
کچھ نظمیں ہیں
جو سگریٹ سے میں نے
راکھ کی طرح جھاڑی ہیں ۔ ۔ ۔

میں تمہیں پھر ملوں گی

میں تمہیں پھر ملوں گی
کہاں؟ کس طرح؟ پتہ نہیں۔ ۔ ۔
شاید تمہارے خیالوں کی چنگاری بن کر
تمہارے کینوس پر اتروں گی
یا ایک پر اسرار لکیر بن کر
خاموش بیٹھی تمہیں دیکھتی رہوں گی۔ ۔ ۔
یا شاید سورج کی لو بنکر
تمہارے رنگوں میں گھلوں گی
یا تمہارے رنگوں کی بانہوں میں بیٹھ کر
کینوس پر پھیل جاؤں گی
پتہ نہیںکس طرح؟
کہاں؟ ۔
لیکن تمہیں ضرور ملوں گی ۔ ۔ ۔
یا شاید
ایک چشمہ بنوں گی
اور جیسے چشمے کا پانی ابلتا ہے

میں پانی کے قطرے تمہارے بدن پر ملوں گی
اور ایک ٹھنڈک سی بن کر
تمہارے سینے سے لگوں گی۔ ۔ ۔
میں اور کچھ تو نہیں جانتی
لیکن یہ معلوم ہے
کہ وقت جدھر بھی کروٹ لے گا
یہ جنم میرے ساتھ چلے گا ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ یہ جسم خاک ہوتا ہے
تو سب کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتاہے
لیکن یادوں کے دھاگے
کائناتی ذروں سے بنے ہوتے ہیں
میں وہی ذرے چنوں گی
دھاگوں کو بٹوں گی
اور تمہیں پھر ملوں گی۔ ۔ ۔



یہ تیرے اور میرے تاریک بدن میں
جو عرفان چراغ
روشن ہواہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے
ستاروںکے لفظ اور کرنوں کی زبان
نقطے کے ارتعاش کی جو ابتدا ہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے
یہ مٹی کے سینے میں
آسمان کا عشق

اسی کا اشارہ ،اسی کی ادا ہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے
یہ تیرے اور میرے تاریک بدن میں
جو عرفان چراغ
روشن ہواہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے

اولیں تخلیق

’’میں‘‘ایک نراکار میں تھی
یہ ’’میں ‘‘ کا تخیل تھا،
جو پانی کا روپ بنا
یہ ’’تو‘‘ کا تخیل تھا ،
جو آگ کی طرح کوندا
اور آگ کا جلوہ پانی پر تیرنے لگا
لیکن وہ تو تاریخ کے آغاز سے پہلے کی بات تھی
یہ ’’میں ‘‘کی تشنگی تھی
کہ اس نے ’’تو‘‘ کا دریا پی لیا
یہ ’میں ‘کی مٹی کا سبز خواب تھا
کہ ’تو‘ کا جنگل اس نے تلاش کر لیا
یہ ’میں ‘کی زمین کی مہک تھی
اور ’تو‘ کے آسمان کا عشق تھا
کہ ’تو‘ کا نیلا سا سپنا
مٹی کی سیج پر سویا
یہ تیرے اور میرے بدن کی خوشبو تھی
اور در اصل یہی اولیں تخلیق تھی
تخلیق کائنات تو بہت بعد کی بات ہے ۔ ۔ ۔

تخلیقی عمل

نظم کبھی کاغذ کو دیکھتی اور کبھی نظر چرا لیتی
جیسے کاغذ پرایا مرد ہو
اسی طرح جیسے
ایک کنواری جب کروے کا ورت رکھتی ہے
اور اس رات خواب میں دیکھتی ہے
کہ کسی مرد کا بدن اسے چھوتا ہے
تو خواب میں بھی کانپ کانپ جاتی ہے ۔
لیکن کبھی وہ خود آگ کا لمس محسوس کرتی
اورچونک کر جاگ جاتی
تب گدرایا بدن چھو کر دیکھتی
چولی کے بٹن کھولتی
چاندنی کے چلو بھر کر بدن پر چھڑکتی
پھر بدن سکھاتی
تو ہاتھ کھسک جاتا
بدن کا اندھیرا چٹائی پر بچھ جاتا
وہ اوندھی سی چٹائی پر لیٹتی
اس کے تنکے توڑتی
تو انگ انگ سلگ اٹھتا
اسے لگتا
کہ بدن کا اندھیرا
کسی طاقت ور بازو میں ٹوٹنا چاہتا ہے
اچانک ایک کاغذ سامنے آتا
اس کے کانپتے ہاتھوں کو چھوتا
اس کا ایک انگ جلتا،ایک انگ پگھلتا
وہ ایک اجنبی گندھ سونگھتی
اور اس کا ہاتھ
بدن میں اترنے والی لکیروں کو دیکھتا
سویا سا ہاتھ اور اداس سا بدن
گھبرا کے ماتھے پر ابھرنے والی
پسینے کی بوندیں پونچھتی
ایک لمبی لکیر ٹوٹتی
اور سانس زندگی اور موت کی
دوہری گندھ میں بھیگ جاتی
یہ سبھی کمزور اور سیاہ لکیریں

جیسے ایک طویل چیخ کے کچھ ٹکڑے
وہ خاموش ،حیران انہیں دیکھتی
اور سوچتی
شاید کوئی ظلم ہو گیا ہے
یا کوئی انگ مر گیا ہے
شاید ایک کنواری کا اسقاط اسی طرح ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

میرا پتہ

آج میں نے اپنے گھر کا نمبر مٹا دیا
اور گلی کی پیشانی پر ثبت گلی کا نام مٹا دیا
اور پھر سڑک کی سمت کا نشان پونچھ دیا
پھر بھی اگر تم مجھے تلاش کرنا چاہو
تو ہر ملک کے ،ہر شہر کی ،ہر گلی کا
دروازہ کھٹکھٹاؤ۔
جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پاؤ
سمجھنا
وہیں میرا گھر ہے ۔

خداسے مخاطب

جب ہر ستارہ
ہر گردش سے گذر کر
تیرے سورج کے پاس آنے لگے
تو سمجھنا
یہ میری جستجو ہے
جو ہر ستارے میں نمایاں ہو رہی ہے۔ ۔ ۔

سائیں

سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
یہ تیری محبت تھی
جو اس پیکر میں ڈھلی
ا ب پیکرسلگے گا
تو ایک دھواں سا اٹھے گا
دھوئیں کا لرزاں بدن
آہستہ سے کہے گا
جو بھی ہوا بہتی ہے
درگاہ سے گذرتی ہے
تیری سانسوں کو چھوتی ہے
سائیں!آج مجھے
اس ہوا میں ملنا ہے
سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
جب بتی سلگ جا ئے گی
ہلکی سی مہک آئے گی
اور پھر میری ہستی
راکھ ہو کر
تیرے قدم چھوئے گی
اسے تیری درگاہ کی
مٹی میں ملنا ہے۔ ۔ ۔

سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
پنجابی سے ترجمہ