Sunday, June 7, 2009

’تہذیبی جنگ‘: علمی نظریہ یا استعماری سیاست کاری

’تہذیبی جنگ‘: علمی نظریہ یا استعماری سیاست کاری

انبساط احمد علوی

ہم عصر دنیا پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی سیاسی برتری اس کی اقتصادی قوت کی رہین منّت رہی ہے۔ امریکی تجارتی دارالسلطنت نیویارک میں اونچا ورلڈ ٹریڈ سینٹر بھی ایک اعتبار سے اسی برتری کی ایک بڑی متاثر کن علامت تھا۔ یہی وجہ ہے کہ رواں صدی کے اوائل میں دو جڑواں عمارتوں کے اس فلک بوس اور پر شکوہ کمپلکس کی فضائی ، حملوں میں تباہی نے دنیا کی واحد باقی ماندہ عاملی قوت کے طور پر نہ صرف امریکہ بلکہ اس کے یورپی حلیفوں کو بھی ایک بڑے سنگین نفسیاتی مسئلہ سے دو چار کر دیا ہے اور اب وہ ذہنی اور زمینی طور سے خود کو ایک نئی سرد جنگ میں مبتلا دیکھتے ہیں۔

امریکہ اور اس کے ہم نواؤں کو یقین ہی نہیں بلکہ عین الیقین ہے کہ ورلڈ ٹریڈ سینٹر کا انہدام ’اسلامی دہشت گردوں ‘ کے ایک بین الاقوامی گروہ کی سوچی سمجھی سازش کا نتیجہ تھا۔ اس احساس نے مغربی دنیا کو درپیش مذکورہ سرد جنگ کو (جو کچھ ایسی سرد بھی نہیں ہے) ایک مذہبی رنگ بھی دے دیا ہے۔ چنانچہ امریکی صدر جارج بش جونیئر نے تو جو آئین کی مدد سے اپنے ملک کی افواج کے سالار اعلی بھی ہیں ، نائین الیون کے سانحہ کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہی مغربی دنیا کے خلاف مبینہ طور سے سرگرم تمام مسلم جہادیوں کو ایک جوابی جہاد یا مسیحی لغت کے مطابق ایک بھیانک تر Crusade کی وعید بھی سنا دی تھی۔

اگرچہ ازاں بعد بش بر بنائے مصلحت اپنے اس بیان کی معنویت کے منکر ہوگئے تھے۔ لیکن انہوں نے اس موقع پر ’اسلامی دہشت گردی‘ کی سر کوبی کے بارے میں جن سے بے باکانہ عزائم کا اظہار کیاتھا، وہ جیسا کہ عراق اور افغانستان کی موجودہ صورت حال سے بھی ظاہر ہوتا ہے ان کے شعور کی ایک سچّی آواز تھے۔ علاوہ ازیں بش کا Crusader ہونا ان کے اس دعویٰ سے بھی مترشّح ہوتا ہے کہ عراق پہ فوج کشی کے احکامات ان پر براہِ راست آسمان سے نازل ہوئے تھے۔ لیکن منطقی اعتبار سے آسمانی رسل و رسائل کے اس سلسلہ کی زمینی حقیقت شاید اس سے زیادہ نہیں ہو سکتی کہ 1991 میں سویت یونین کے خاتمہ کے بعد سے ہی دنیا کی واحد سپر پاور کی حیثیت سے امریکہ کو عالمی بساطِ سیاست پر بے جوڑ پنجہ آزمائی کے لئے ایک نئے ’فطری‘ حریف کی تلاش تھی۔ روسی ’سدِّ سکندری‘ کی شکست و ریخت کے بعد یہ فطری حریف، روس پر اپنی ’فتح‘ کے نشہ سے سرشار اس کا پرانا جہادی حلیف افغانستان اور تیل کی دولت سے مالا مال عراق ہی ہو سکتے تھے۔ ادھر امریکہ کے سیاسی پنڈتوں نے بھی تہذیبی بنیادوں پر یہود و نصاریٰ کے مابین ایک فیصلہ کن جنگ کی پیشن گوئی کر کے بش انتظامیہ کو اپنے اس نئے غنیم یعنی غیرمشروط اطاعت شعاری سے گریزاں ہر مسلم ملک کے خلاف رزم آرا ہونے کا نظریاتی جواز بھی فراہم کر دیا ہے۔

’تہذیبی جنگ‘ کا نظریہ اصلاً ہارورڈ یونیورسٹی میں سیاسیات کے ایک پروفیسر سیموئیلفلپس ہنٹنگٹن Samuel Phillips Huntingtonکے ذہنِ رسا کی اختراع ہے، جنہوں نے سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد Clash of Civilizations کے عنوان سے امریکہ کے معروف علی جریدہForeign Affairs کے لئے ایک مقالہ تحریر کیا تھا۔ بعد میں اسی مقالہ کو Clash of Civilizations and the Remaking of World Order(تہذیبی جنگ اور عالمی نظام کی تشکیل نو) کے نام سے کتابی شکل دے دی گئی تھی۔ مذکورہ کتاب جیسا کہ اس کے نام سے بھی ظاہر ہے فاتحِ عالم کی حیثیت سے امریکہ کی قیادت میں موجودہ یک قطبی دنیا Unipolar World کے انتظام و انصرام کا ایک لائحۂ عمل یا ہدایت نامہ ہے جس کی امریکہ اور یورپ کے پالیسی ساز حلقو ں میں زبردست پذیرائی دیکھنے میں آئی ہے۔

مثال کے طور پر رچرڈ نکسن کے دورِ صدارت کے شہرہ آفاق سیکریٹری آف اسٹیٹ ہنری کسنجر نے جو کسی زمانے میں خود بھی ہارورڈ میں سیاسیات کے پروفیسر رہ چکے ہیں ، ہنلنگٹن کی اس تصنیف کو ’’سرد جنگ کے خاتمہ کے بعد منظرِ عام پر آنے والی ایک اہم ترین کتاب‘ ‘قرار دیا ہے، جب کہ اسی منصب پر فائز رہنے والے ایک اور معروف سیاسی مبصر زبگنیو برزنسکی Zbigniew Burzynskiکا تبصرہ ہے کہ’’ یہ تحریر ایک بڑا زرخیز علمی کارنامہ ہے جو بین الاقوامی امور کے ادراک و آگہی کے معاملہ میں انقلاب برپا کر دے گا۔ ‘‘

تہذیبی جنگ کے نظریہ کو اختصار کے ساتھ اگر خود سیموئیل ہنٹگنٹن کی اصطلاحات میں بیان کیا جائے تو سوویت یونین کے خاتمہ کے بعد کی دنیا اگرچہ اب دو قطبی نظام کا حامل سیاسی اکھاڑہ تو نہیں رہی ہے، لیکن اپنی موجودہ شکل میں اسے دوسو کے قریب ممالک کا ایک مجموعۂ محض بھی قرار نہیں دیا جا سکتا کیونکہ یہ ممالک کوئی سات یا آٹھ جداگانہ تہذیبی اکائیوں میں بٹے ہوئے ہیں جن میں شمالی امریکہ اور یوروپی ممالک پر مشتمل مغربی تہذیب کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ اس کے برعکس دنیائے اسلام اور لاطینی امریکی ممالک اپنے درمیان کسی قابلِ لحاظ نمائندہ طاقت کی عدم موجودگی کے باعث اس تہذیبی سلسلے کی کم زور ترین کڑیاں ہیں۔ جہاں تک عالمی اسلامی برادری کا تعلق ہے وہ مغربی، ہندو، چینی، جاپانی اور افریقی تہذیبوں کے مقابلہ میں ایک یک سر مختلف مزاج کی حامل تہذیب ہے۔ ہنٹنگٹن کے تجزیہ کے مطابق مادی ترقی کے فقدان کے باوجود یہ تہذیب غیر مسلم دنیا پر اپنی برتری کے زعم میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے تشدد اس کی فطرت ثانیہ بن کر رہ گیا ہے اور یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کے پیش نظر مغربی دنیا کو اسلامی بنیاد پرستی کے بجائے اب اسلام سے ہی نمٹنے کی فکر کرنی چاہئے۔

بش انتظامیہ اور بحر اوقیانوس کے اِس پار اُن کے ٹونی بلیئر جیسے دیگر حواری افغانستان، عراق اور فلسطین میں آج جن حکمت عملیوں کا مظاہرہ کر رہے ہیں اس کے پیش نظر برزنسکی کی پیش گوئی کے عین مطابق ہنٹنگٹن کے تجویز کردہ عاملی نظام کی تشکیل نو کے اس فکر و فلسفہ کی ’انقلاب آفرینی‘ سے بھلا کون انکار کر سکتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس میں پنہاں تہذیبی جنگ کے تصور کو احمقانہ حد تک سہل بلکہ لچر سمجھنے والے مفکرین کی بھی کمی نہیں ہے اور آں جہانی ایڈورڈ سعید کی طرح اس نظریہ کا ہر ناقد عرب یا فلسطینی نژاد بھی نہیں کیوں کہ خود امریکہ اور یورپ کے علمی حلقوں میں ہنٹنگٹن کی اس کی کتاب کے حوالہ سے بڑے تواتر کے ساتھ اس بات کی نشاندہی کی جاتی رہی ہے کہ برسر پیکار ہونے کیلئے متحارب قوموں کا جداگانہ تہذیبوں سے متعلق ہونا کلیتاً ضروری نہیں ہے، کیوں کہ گزشتہ صدی میں لڑی جانے والی دونوں عظیم جنگیں جن میں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگ کام آئے تھے، خود مغربی تہذیب کے اپنے داخلی انتشار کا شاخسانہ تھیں۔

مثلاً جاپان کے شاہ ہیرو ہوتو کے استثنا کے ساتھ روزویلٹ، چرچل، اسٹالن، ہٹلر اور مسولینی جیسے دوسری جنگ کے تمام کلیدی کردار نہ صرف یورپی نژاد تھے بلکہ ان میں سے بیش تر کو اپنے کلیسائی ہونے پر بھی کوئی شرمندگی نہیں تھی۔ اس اعتبار سے بیسویں صدی کی دونوں جنگیں مغربی تہذیب ہی نہیں بلکہ مسیحی دنیا Christendom کے اپنے اجزا و عناصر کا باہمی جنگ و جدال بھی تھیں۔

با اعتبار تشخّص اس مغربی اور مسیحی دنیا نے بظاہر آج اپنے بہت سے تضادات کو پس پشت ڈالتے ہوئے ایک زیادہ مربوط شکل اختیار کر لی ہے لیکن اس کے نتیجہ میں جو مغربی تہذیب سامنے آئی ہے وہ بھی ہمیشہ کی طرح عملاً ایک نسل پرستانہ racial تہذیب ہے۔ ہنٹنگٹن بھی اسی تہذیب کے مفادات کے ایک پر جوش، ترجمان ہیں جس کے واضح اشارے ان کی ایک حالیہ تصنیف ’امریکہ کو درپیش عظیم بحث، ہم کون ہیں ؟‘ "Americas' Great Debate: Who Are we?" سے بھی ملتے ہیں۔ یاد رہے کہ ’تہذیبی جنگ میں ‘ ہنٹنگٹن نے عالم اسلام کے ساتھ ساتھ وسطی اور جنوبی امریکہ کی تہذیبی پس ماندگی کا بھی رونا رویا تھا۔ لیکن ’ہم کون ہیں ...‘ میں انہوں نے کھل کر امریکی تشخصّ میں لاطینی خلط کی مخالفت کرتے ہوئے ایک ملک اور قوم کی حیثیت سے اسے ریاست ہائے متحدہ کے لئے خطرناک قرار دیا ہے۔ با الفاظ دیگر ہنٹنگٹن نہیں چاہتے کہ کثیر الثقافتی معاشرہ multi-culturalism کے فروغ کے نام پر بالخصوص میکسیکو کے باشندوں کو امریکہ نقل مکانی کی کھلی اجازت دی جائے۔ ان میکسیکی تارکین وطن کا جنہیں عرف عام میں امریکی براعظموں کے تمام رنگ دار قدیمی باشندوں کی طرح ’انڈین‘ کہا جاتا ہے، قصور صرف اتنا ہے کہ ان کے آبا و اجداد قبل از تاریخی ادوار میں یورپ کے بجائے مشرق بعید سے نقل مکانی کر کے سرزمین امریکہ پر وارد ہوئے تھے۔ عہد حاضر میں لاطینی امریکہ کے ان انڈین باشندوں نے کئی صدیاں اقوام یورپ کی غلامی میں بسر کی ہیں۔ لیکن اس دوران انہوں نے اپنے ہسپانوی حکمرانوں کی زبان اور کیتھولک مذہب کو تو ضرور اپنا لیا ہے لیکن ظاہر ہے کہ وہ اپنی رنگت تبدیل کرنے پر قادر نہیں ہیں۔ لہٰذا شمالی امریکہ کے گورے نو آباد کاروں کی نگاہ میں انگریزی زبان سے نابلد غیر فصیح ہسپانوی بولنے والے یہ انسان نما دو پائے اپنی اس کم اصلی کی بنا پر امریکہ کے نسلی طور پر اعلیٰ وارفع معاشرہ میں ضم ہونے کی خلقی صلاحیت سے محروم ہیں اور اس جرم کی بنا پر ان کا بڑی تعداد میں امریکہ آنا اس ملک کے سیاسی آقاؤں کا مفاد نہیں ہو سکتا۔

اس نوعیت کی نسل پرستی دراصل شروع سے ہی انگریزی نژاد پروٹسنٹ امریکیوں کا، جنہیں White Anglo-Saxan Protestantsیا اختصار کے ساتھ صرف WASP کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے، شعار رہی ہے۔ اور یہ دنیا کی بد قسمتی ہے کہ گورے اینگلو سیکسن امریکیوں کا یہی طبقہ صیہونی مہاجنوں کی تائید سے اس وقت دنیا کا حکمراں بنا بیٹھا ہے۔ لیکن امریکی انتظامیوں کے یہودی رابطے ایک الگ کہانی ہیں۔ سر دست یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ ہنٹنگٹن کے وسوسوں کے برخلاف مغربی دنیا اپنے مذہبی اور مسلکی نوعیت کے اندرونی تضادات کی بنا پر ایک مربوط تہذیبی اکائی کہلائے جانے کی بھی حق دار نہیں بن سکتی کیوں کہ انگریزی نژاد پروٹسنٹ اپنے کیتھولک ہم مذہبوں کے بارے میں بھی سیاسی اور معاشرتی سطح پر گو نا گوں قسم کے ذہنی تحفظات رکھتے آئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ پروٹسٹنٹ کلیسا کے کار پردازوں اور امریکہ کے روایت پسند سیاسی حلقوں نے آئرش الاصل جان کینیڈی کو بھی 1960 کے صدارتی انتخاب میں امیدوار بننے کی اجازت صرف اس شرط کے ساتھ دی تھی کہ وہ کام یابی کی صورت میں اپنے کیتھولک مسلک اور امریکی مفادات کے مابین تصادم کے کسی بھی امکان کے پیش نظر منصب صدارت سے فی الفور سبک دوش ہونے کو ترجیح دیں گے۔ لیکن یہ بھی ایک الگ کہانی ہے۔ فی الوقت کہنا صرف یہ مقصود ہے کہ امریکہ کے گورے پروٹسٹنٹ حکمرانوں کا موجودہ ہدف رومن کیتھولک،لاطینی امریکہ اور فرانس، بدھسٹ جاپان اور چین یا ’ہندو‘ ہندوستان کے بجائے صرف اسلامی دنیا ہے اور اس کی وجوہات مذہبی بھی ہیں اور معاشرتی بھی، سیاسی بھی ہیں اور اقتصادی بھی۔ ہنٹنگٹن نے تہذیبی جنگ کے نظریہ کو ضبطِ تحریر میں لا کر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ان تمام نکتہ ہائے نگاہ سے شمالی امریکہ اور مغربی یورپ کے ہر روائتی تعصب اور مخاصمت کو ایک نئی زبان اور آہنگ بخشنے کی سعی کی ہے۔ لیکن اس سے یہ تاریخی حقیقت بہر حال تبدیل نہیں ہوتی کہ اس سقراطِ وقت کی طرف سے عالم اسلام کی جس تمدنی ’پس ماندگی‘ کو بنیاد بناکر مغربی تہذیب کی نمائندہ طاقتوں کو جہادی عناصر کے خلاف ایک فیصلہ کن جنگ کے لئے تیار رہنے کی حکمتِ تعلیم کی جا رہی ہے وہ خود مسلم ممالک پر مغربی استعماری قوتوں کی دو ڈھائی سو سال پر محیط حکمرانی کی دین ہے اور جہاں تہاں امریکی بالا دستی کے خلاف سرگرم مذکورہ جہادی حلقوں کا وجود بھی اپنے اپنے ممالک اور قوموں کے خلاف مغربی دنیا کے اسی تاریخی جرم کا ایک فطری رد عمل ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ مغربی دنیا زمانۂ حال میں بھی ’اعتدال پسندی‘ کے نام پر حامد کرزئی، سوہارتو، حبیب بورقبیہ، انور سادات اور حسنی مبارک جیسے اپنے عربی اور عجمی گماشتوں کو عالمِ اسلام پر مسلّط کر کے اس کے لئے مزید سیاسی رسوائیوں اور اقتصادی زبوں حالی کا سامان پیدا کرتی رہی ہے۔ چنانچہ جہادی حلقے جو بجا طور سے ’اعتدال پسندی‘ کے اس امریکی اور یورپی ایجنڈہ کو عالم اسلام کی بے لگام اور لایعنی مغرب کاری Westernisation سے تعبیر کرتے ہیں ، آج جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ مسلمانوں کی عمومی فہم و فراست کے مطابق بھی مسلم دنیا کی سیاسی، نظریاتی اور اقتصادی بقا کی جنگ ہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی حواریوں نے جہادی حلقوں کی اس ’جسارتِ بیجا‘ کا جواب نہ صرف جہادی رضاکاروں بلکہ عورتوں اور بچوں سمیت عراقی، افغانی اور فلسطینی عوام کے یک طرفہ قتل عام کی شکل میں دیا ہے۔ ہنٹنگٹن جیسے حکمائے سیاست علمیت کی دبیز چادر ڈال کر عالمِ اسلام اور اقوامِ مشرق کے خلاف، جن میں کل تک بدھسٹ کو ریا اور ویت نام بھی شامل تھے، مغربی تہذیب کے ان مکروہ جرائم اور عزائم کو دنیا کے اجتماعی ضمیر سے تا دیر پوشیدہ نہیں رکھ سکتے۔ چناں چہ ’تہذیبی جنگ‘ کا نظریہ پیش کر کے انہوں نے جو کارنامہ سر انجام دیا ہے اسے علمی اعتبار سے مغرب کے سیاسی حلقوں میں خواہ کتنا ہی وقیع کیوں نہ گردانا جائے، اخلاقی اور واقعاتی اعتبار سے اسکا پوچ ہونا از خود ثابت ہے۔