Monday, June 8, 2009

درد جو زندگی بنا۔۔ امرتا پریتم

درد جو زندگی بنا

امرتا پریتم کی نظمیں
ترجمہ: اسما سلیم


ایک درد تھا

ایک درد تھا
جو سگریٹ کی طرح
میں نے چپ چاپ پیا ہے
کچھ نظمیں ہیں
جو سگریٹ سے میں نے
راکھ کی طرح جھاڑی ہیں ۔ ۔ ۔

میں تمہیں پھر ملوں گی

میں تمہیں پھر ملوں گی
کہاں؟ کس طرح؟ پتہ نہیں۔ ۔ ۔
شاید تمہارے خیالوں کی چنگاری بن کر
تمہارے کینوس پر اتروں گی
یا ایک پر اسرار لکیر بن کر
خاموش بیٹھی تمہیں دیکھتی رہوں گی۔ ۔ ۔
یا شاید سورج کی لو بنکر
تمہارے رنگوں میں گھلوں گی
یا تمہارے رنگوں کی بانہوں میں بیٹھ کر
کینوس پر پھیل جاؤں گی
پتہ نہیںکس طرح؟
کہاں؟ ۔
لیکن تمہیں ضرور ملوں گی ۔ ۔ ۔
یا شاید
ایک چشمہ بنوں گی
اور جیسے چشمے کا پانی ابلتا ہے

میں پانی کے قطرے تمہارے بدن پر ملوں گی
اور ایک ٹھنڈک سی بن کر
تمہارے سینے سے لگوں گی۔ ۔ ۔
میں اور کچھ تو نہیں جانتی
لیکن یہ معلوم ہے
کہ وقت جدھر بھی کروٹ لے گا
یہ جنم میرے ساتھ چلے گا ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ یہ جسم خاک ہوتا ہے
تو سب کچھ ختم ہوتا ہوا محسوس ہوتاہے
لیکن یادوں کے دھاگے
کائناتی ذروں سے بنے ہوتے ہیں
میں وہی ذرے چنوں گی
دھاگوں کو بٹوں گی
اور تمہیں پھر ملوں گی۔ ۔ ۔



یہ تیرے اور میرے تاریک بدن میں
جو عرفان چراغ
روشن ہواہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے
ستاروںکے لفظ اور کرنوں کی زبان
نقطے کے ارتعاش کی جو ابتدا ہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے
یہ مٹی کے سینے میں
آسمان کا عشق

اسی کا اشارہ ،اسی کی ادا ہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے
یہ تیرے اور میرے تاریک بدن میں
جو عرفان چراغ
روشن ہواہے
وہی تو خدا ہے۔ ۔ ۔ وہی تو خدا ہے

اولیں تخلیق

’’میں‘‘ایک نراکار میں تھی
یہ ’’میں ‘‘ کا تخیل تھا،
جو پانی کا روپ بنا
یہ ’’تو‘‘ کا تخیل تھا ،
جو آگ کی طرح کوندا
اور آگ کا جلوہ پانی پر تیرنے لگا
لیکن وہ تو تاریخ کے آغاز سے پہلے کی بات تھی
یہ ’’میں ‘‘کی تشنگی تھی
کہ اس نے ’’تو‘‘ کا دریا پی لیا
یہ ’میں ‘کی مٹی کا سبز خواب تھا
کہ ’تو‘ کا جنگل اس نے تلاش کر لیا
یہ ’میں ‘کی زمین کی مہک تھی
اور ’تو‘ کے آسمان کا عشق تھا
کہ ’تو‘ کا نیلا سا سپنا
مٹی کی سیج پر سویا
یہ تیرے اور میرے بدن کی خوشبو تھی
اور در اصل یہی اولیں تخلیق تھی
تخلیق کائنات تو بہت بعد کی بات ہے ۔ ۔ ۔

تخلیقی عمل

نظم کبھی کاغذ کو دیکھتی اور کبھی نظر چرا لیتی
جیسے کاغذ پرایا مرد ہو
اسی طرح جیسے
ایک کنواری جب کروے کا ورت رکھتی ہے
اور اس رات خواب میں دیکھتی ہے
کہ کسی مرد کا بدن اسے چھوتا ہے
تو خواب میں بھی کانپ کانپ جاتی ہے ۔
لیکن کبھی وہ خود آگ کا لمس محسوس کرتی
اورچونک کر جاگ جاتی
تب گدرایا بدن چھو کر دیکھتی
چولی کے بٹن کھولتی
چاندنی کے چلو بھر کر بدن پر چھڑکتی
پھر بدن سکھاتی
تو ہاتھ کھسک جاتا
بدن کا اندھیرا چٹائی پر بچھ جاتا
وہ اوندھی سی چٹائی پر لیٹتی
اس کے تنکے توڑتی
تو انگ انگ سلگ اٹھتا
اسے لگتا
کہ بدن کا اندھیرا
کسی طاقت ور بازو میں ٹوٹنا چاہتا ہے
اچانک ایک کاغذ سامنے آتا
اس کے کانپتے ہاتھوں کو چھوتا
اس کا ایک انگ جلتا،ایک انگ پگھلتا
وہ ایک اجنبی گندھ سونگھتی
اور اس کا ہاتھ
بدن میں اترنے والی لکیروں کو دیکھتا
سویا سا ہاتھ اور اداس سا بدن
گھبرا کے ماتھے پر ابھرنے والی
پسینے کی بوندیں پونچھتی
ایک لمبی لکیر ٹوٹتی
اور سانس زندگی اور موت کی
دوہری گندھ میں بھیگ جاتی
یہ سبھی کمزور اور سیاہ لکیریں

جیسے ایک طویل چیخ کے کچھ ٹکڑے
وہ خاموش ،حیران انہیں دیکھتی
اور سوچتی
شاید کوئی ظلم ہو گیا ہے
یا کوئی انگ مر گیا ہے
شاید ایک کنواری کا اسقاط اسی طرح ہوتا ہے ۔ ۔ ۔

میرا پتہ

آج میں نے اپنے گھر کا نمبر مٹا دیا
اور گلی کی پیشانی پر ثبت گلی کا نام مٹا دیا
اور پھر سڑک کی سمت کا نشان پونچھ دیا
پھر بھی اگر تم مجھے تلاش کرنا چاہو
تو ہر ملک کے ،ہر شہر کی ،ہر گلی کا
دروازہ کھٹکھٹاؤ۔
جہاں بھی آزاد روح کی جھلک پاؤ
سمجھنا
وہیں میرا گھر ہے ۔

خداسے مخاطب

جب ہر ستارہ
ہر گردش سے گذر کر
تیرے سورج کے پاس آنے لگے
تو سمجھنا
یہ میری جستجو ہے
جو ہر ستارے میں نمایاں ہو رہی ہے۔ ۔ ۔

سائیں

سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے

ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
یہ تیری محبت تھی
جو اس پیکر میں ڈھلی
ا ب پیکرسلگے گا
تو ایک دھواں سا اٹھے گا
دھوئیں کا لرزاں بدن
آہستہ سے کہے گا
جو بھی ہوا بہتی ہے
درگاہ سے گذرتی ہے
تیری سانسوں کو چھوتی ہے
سائیں!آج مجھے
اس ہوا میں ملنا ہے
سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
جب بتی سلگ جا ئے گی
ہلکی سی مہک آئے گی
اور پھر میری ہستی
راکھ ہو کر
تیرے قدم چھوئے گی
اسے تیری درگاہ کی
مٹی میں ملنا ہے۔ ۔ ۔

سائیں!تو اپنی چلم سے
تھوڑی سی آگ دے دے
میں تیری اگر بتی ہوں
اور تیری درگاہ پر مجھے
ایک گھڑی جلنا ہے۔ ۔ ۔
پنجابی سے ترجمہ


جنگلی بوٹی۔ امرتا پریتم

جنگلی بوٹی
کہانی
امرتا پریتم

انگوری میرے پڑوسیوں کے پڑوسیوں کے گھر ،ان کے بڑے پرانے نوکر کی با لکل نئی بیوی ہے ۔نئی اس معنی میں کہ وہ اپنے شوہر کی دوسری بیوی ہے ،سو اس کا پتی دو ہاجو ہوا ۔جون کا مطلب اگر جون ہو تو اس کا مطلب ہوا دوسری جون میں جانے والا آ دمی،یعنی دوسری شادی کی جون میں ۔اور انگوری ابھی شادی کی پہلی جون میں ہی ہے ،اس لئے وہ نئی ہوئی۔دوسرے وہ اس بات سے بھی نئی ہے کہ اس کا گونہ ہوئے ابھی جتنے مہینے ہوئے ہیں،وہ سب مہینے ملاکر بھی ایک سال نہیں بنیں گے۔
پانچ چھ سال پہلے پربھاتی جب اپنے مالکوں سے چھٹی لے کر اپنی پہلی بیوی کی کریا کرنے کے لئے اپنے گاؤں گیا تھا،تو کہتے ہیں کہ کریا والے دن انگوری کے باپ نے اس کا انگوچھا نچوڑ دیا تھا ۔حالانکہ کسی بھی مردکا انگوچھا بیوی کی موت پر آنسوؤں سے نہیں بھیگا ہوتا،چوتھے دن کریا کے دن نہا کر بدن پوچھنے کے بعد وہ پانی سے ہی بھیگتا ہے،لیکن گاؤں میں کسی لڑکی کا باپ جب یہ انگوچھا نچوڑ دیتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہوتی ہے کہ اب وہ مرنے والی کی جگہ اپنی بیٹی دے رہا ہے اور کہہ رہا ہے کہ اب تمہیں رونے کی ضرورت نہیں،میں نے تمہارا آنسوؤں سے بھیگا ہوا انگو چھا بھی سکھا دیا ہے۔
اس طرح پربھاتی کی اس انگوری کے ساتھ دوسری شادی ہوگئی ۔مگر ایک تو ابھی انگوری بہت کم عمر تھی ،دوسرے انگوری کی ماں کو گٹھیا بھی تھا۔اس لئے گونے کی بات پانچ سال کے لئے ٹل گئی...پھر ایک ایک کرکے پانچ سال نکل گئے اور اس سال جب پربھا تی اپنے مالکوں سے چھٹی لے کر گونہ لینے گاؤںگیا توان سے کہہ گیا تھا کہ یا تو اپنی بیوی کو بھی وہ ساتھ میں لائے گا اور شہر میں اپنے ساتھ رکھے گا ،یا پھرخود بھی واپس نہیں آئے گا ۔مالکوں نے پہلے تو انکار کیا کیونکہ ایک کی جگہ انہیں دو لوگوں کو کھانا دینا پڑتالیکن جب پربھاتی نے یہ بات کہی کہ وہ کوٹھری کے پیچھے والی کچی جگہ کو پوت کر اپنا الگ چولہا بنائے گی اور اپنا کھاناخود پکا کر کھائے گی تو اس کے مالک یہ بات مان گئے تھے ۔سو انگوری شہر آگئی۔
شہر آکر انگوری نے کچھ دن محلے کے مردوں سے توکیا عورتوں سے بھی گھونگھٹ نہ کھولا تھا،لیکن پھر آہستہ آہستہ یہ گھونگھٹ مختصر ہوتا گیا ۔پیروں میں چاندی کی جھانجھر پہن کر چھنک چھنک کرتی ہوئی وہ محلے کی رونق بن گئی تھی۔ایک جھا نجھر اس کے پاؤں میں بجتی تھی ایک اس کی ہنسی میں ۔اگر چہ دن کا بیش تر حصہ وہ اپنی کوٹھری ہی میں گذارتی تھی ،مگر جب بھی باہر نکلتی تو ایک رونق اس کے قدموں کے ساتھ ساتھ چلتی تھی ۔
’’یہ کیا پہنا ہے انگوری ؟‘‘
’’یہ تو میرے پیروںکی چھیل ،چوڑی ہے۔ ‘‘
’’اور یہ انگلیوں میں ؟‘‘
’’یہ تو بچھوا ہے ۔‘‘
’’اور یہ بانہوں میں؟’’
’’یہ تو پچھیلا ہے۔ ‘‘
’’اور ماتھے پر ؟‘‘
’’اسے علی بند کہتے ہیں۔ ‘‘
’’آج تم نے کمر میں کچھ نہیں پہنا؟‘‘
’’تگڑی بہت بھاری لگتی ہے ۔کل پہنوں گی ۔آج تو میں نے طوق بھی نہیں پہنا،اس کا ٹانکا ٹوٹ گیا ہے ۔کل شہر جاؤں گی،تب ٹانکا بھی لگواؤں گی اور ناک کی کیل بھی لاؤں گی ۔‘‘
اس طرح انگوری اپنے چاندی کے زیور ایک ادا سے پہنتی تھی اور ایک نخرے سے دکھا تی تھی۔
پچھلے دنوں جب موسم بدلا تو اپنی چھوٹی سی کو ٹھری میں انگوری کا دم گھٹنے لگا ۔کئی بار وہ میرے گھر کے سامنے آکر بیٹھ جاتی تھی ۔میرے گھر کے آگے نیم کے بڑے بڑے پیڑ ہیں،اور ان پیڑوں کے پاس ذرا اونچی جگہ پر ایک پرانا کنواں ہے ۔محلے کا کوئی بھی شخص اس کنوئیں سے پانی نہیں بھرتا،مگر اس کے پار ایک سرکاری سڑک بن رہی ہے اور سڑک کے مزدور کئی بار اس کنوئیں کو چلا لیتے ہیں ۔اس سے کنوئیں کے گرد پانی گر نے کی وجہ سے یہ جگہ بڑی ٹھنڈی رہتی ہے ۔
’’کیا پڑھتی ہو بی بی جی؟‘‘
ایک دن جب انگوری آئی تو میں نیم کے پیڑوں کے نیچے بیٹھی ایک کتاب پڑھ رہی تھی۔
’’تم پڑھو گی؟‘‘
’’مجھے پڑھنا نہیں آتا۔‘‘
سیکھ لو۔‘‘
’’نہ۔‘‘
’’کیوں؟‘‘
’’پڑھنے سے عورتوں کو پاپ لگتا ہے۔ ‘‘
’’عورتوں کو پاپ لگتا ہے ،مردوں کو نہیں لگتا؟‘‘
’’نہ،مرد کو نہیں لگتا۔‘‘
’’یہ تم سے کس نے کہا ہے ؟‘‘
’’میں جانتی ہوں ۔‘‘
’’لیکن میں تو پڑھتی ہوں ،تو مجھے پاپ لگے گا؟‘‘
’’شہر کی عورت کو پاپ نہیں لگتا،گاؤں کی عورت کو پاپ لگتا ہے ۔‘‘
میں بھی ہنس پڑی اور انگوری بھی۔انگوری نے جو کچھ سیکھا ،سنا ہوا تھا اس میں اسے کوئی شک نہیں تھا،اس لئے میں نے اس سے کچھ نہیں کہا۔وہ اگر ہنستی کھیلتی اپنی زندگی میں سکھی رہ سکتی تھی،تو اس کے لئے یہی مناسب تھا۔ویسے میں انگوری کے چہرے کا بغور جائزہ لیتی رہی۔گہرے سانولے رنگ میں اس کے بدن کا مانس گتھاہوا تھا۔عورت آٹے کی لوئی ہوتی ہے ۔مگر کئی عورتوں کے بدن کا مانس اس پتلے آٹے کی طرح ہو تا ہے ،جس کی روٹی کبھی گول نہیں بنتی۔ ا ور کئی عورتوں کے بدن کامانس با لکل خمیری آٹے کی طرح ہوتا ہے ،جسے بیلنے سے پھیلایا نہیں جا سکتا۔کسی کسی کے بدن کا مانس اتنا سخت گندھا ہوتا ہے کہ روٹی تو کیا ،پوریاں بیل لو...میں انگوری کے چہرے کی طرف دیکھتی رہی۔انگوری کی چھاتی کی طرف،اس کی پنڈلیوں کی طرف...وہ اتنے سخت میدے کی مانند گندھی ہوئی تھی کہ اس کی مٹھریاں تلی جا سکتی تھیں۔اس کا شوہر بھی میرا دیکھا ہوا تھا۔ٹھنگنا قد،ڈھلکا ہوا منہ،الٹے سکورے جیسا۔اب انگوری کا روپ دیکھ کر مجھے ایک عجیب سا خیال آیا کہ پربھاتی آٹے کی اس لوئی کو پکا کر کھانے کا حق دار نہیں ۔وہ اس لوئی کو صرف ڈھک کر رکھ سکتا ہے ۔اپنے اس خیال پر مجھے ہنسی آگئی۔لیکن میں انگوری کو اس خیال کے بارے میں کچھ بتانانہیں چاہتی تھی ۔اس لئے میں اس سے گاؤں کی چھوٹی چھوٹی باتیں کرنے لگی۔ماں باپ کی ،بہن بھائیوں کی اور کھیتوں کھلیانوں کی باتیں کرتے ہوئے میں نے اس سے پوچھا۔’’انگوری تمہارے گاؤں میں شادی کیسے ہوتی ہے؟‘‘
’’لڑکی چھوٹی سی ہوتی ہے،پانچ سات سال کی جب کسی کے پاؤں پوج لیتی ہے۔‘‘
’’کیسے پوجتی ہے پاؤں؟‘‘
’’لڑکی کا باپ جاتا ہے ،پھولوں کی ایک تھالی لئے،ساتھ میں روپے اور لڑکے کے آگے رکھ دیتا ہے۔ ‘‘
’’یہ تو ایک طرح سے باپ نے پوج لئے ،لڑکی نے کیسے پوجے؟‘‘
’’لڑکی کی طرف سے تو پو جے۔ ‘‘
’’مگر لڑکی نے تو اسے دیکھا بھی نہیں۔‘‘
’’لڑکیاں نہیں دیکھتیں۔‘‘
لڑکیاں اپنے ہونے والے خاوند کو نہیں دیکھتیں؟‘‘
’’نا۔‘‘
پہلے تو انگوری نے منع کر دیا،پھر کچھ سوچ سوچ کر کہنے لگی۔’’جو لڑکیاں محبت کرتی ہیں ،وہ دیکھتی ہیں ۔‘‘
تمہارے گاؤں میں لڑکیاں محبت کرتی ہیں؟‘‘
کوئی کوئی۔‘‘
’’ جو محبت کرتی ہیں ،ان کو پاپ نہیں لگتا؟‘‘ مجھے اس کی وہ بات یاد آگئی تھی کہ عورت کو پڑھنے سے پاپ لگتا ہے ،اس لئے میںنے سوچا کہ محبت کرنے سے بھی پاپ لگتا ہو گا۔
’’پاپ لگتا ہے ،بڑا پاپ لگتا ہے۔‘‘انگوری نے جلدی سے کہا۔
’’اگر پاپ لگتا ہے تو پھر وہ محبت کیوں کرتی ہیں ؟‘‘
’’یہ تو ...بات یہ ہے کہ جب کوئی آدمی کسی لڑکی کو جنگلی بوٹی کھلا دیتا ہے تو وہ اس سے محبت کرنے لگتی ہے ۔‘‘
’’کوئی کیا کھلا دیتا ہے اس کو؟ ‘‘
’’ایک جنگلی بوٹی ہوتی ہے ،بس وہی پان میں ڈال کر یا مٹھائی میں ڈال کر کھلا دیتاہے،لڑکی اس سے محبت کرنے لگتی ہے پھر اسے اس کے علاوہ اور کچھ اچھا نہیں لگتا ۔‘‘
’’سچ۔‘‘
’’میں جانتی ہوں ،میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔ ‘‘
’’کسے دیکھا تھا؟ ‘‘
’’میری ایک سہیلی تھی، اتنی بڑی تھی مجھ سے۔‘‘
پھر؟‘‘
’’پھر کیا؟ وہ تو پا گل ہو گئی اس کے پیچھے، شہر چلی گئی تھی اس کے ساتھ۔‘‘
’’تمہیں یہ کیسے معلوم کہ تمہاری سکھی کو اس نے بوٹی کھلائی تھی۔‘‘
’’نہیں کھلائی تھی تو پھروہ اس سے محبت کیوں کرنے لگی؟ ‘‘
’’محبت تو یوں بھی ہو جاتی ہے۔ ‘‘
’’نہیں ایسے نہیں ہوتا،جس سے ماں باپ برا مان جائیں،بھلا اس سے محبت کیسے ہو سکتی ہے ؟‘‘
’’تو نے وہ جنگلی بو ٹی دیکھی ہے ؟‘‘
’’میں نے نہیں دیکھی،وہ تو بڑی دور سے لاتے ہیں ،پھر چپکے سے مٹھائی یا پان میں ڈال کر کھلا دیتے ہیں۔میری ماں نے تو پہلے ہی بتا دیا تھاکہ کسی کے ہاتھ سے مٹھائی نہ کھانا ۔‘‘
’’تونے بہت اچھا کیا کہ کسی کے ہاتھ سے مٹھائی نہیں کھائی،لیکن تیری اس سہیلی نے کیسے کھالی؟‘‘
’’پتہ نہیں ،اپنی کرنی بھگتے گی۔‘‘
’اپنی کرنی بھگتے گی‘کہنے کو تو انگوری نے کہہ دیا لیکن پھر شاید اسے سہیلی پر پیار آگیا یا ترس آیا،دکھی لہجے میں کہنے لگی’’ باوری ہو گئی تھی بے چاری، بالوں میں کنگھا بھی نہیں کرتی تھی ،راتوں کو اٹھ اٹھ کرگانے گاتی تھی۔‘‘
’’کیا گاتی تھی؟‘‘
’’پتہ نہیں ،کیاگاتی تھی،جو بوٹی کھا لیتی ہے ،بہت گاتی ہے ،رو تی بھی بہت ہے۔ ‘‘
بات گانے سے رونے پر آگئی تھی اس لئے میں نے انگوری سے مزید کچھ نہیں پوچھا۔

اور ابھی کچھ دن پہلے ہی کی بات ہے ۔ایک دن انگوری نیم کے پیڑ کے نیچے چپ چاپ میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔پہلے جب وہ آتی تھی تو چھم چھم کرتی بیس گز دور سے ہی اس کے آنے کی آواز سنائی دے جاتی تھی۔مگر آج اس کے پیروں کی جھانجھر پتہ نہیں کہاں کھوئی ہوئی تھی۔میں نے کتاب سے سر اٹھایا اور پو چھا ۔’’کیا بات ہے انگوری؟‘‘
انگوری پہلے تو کچھ دیر مجھے دیکھتی رہی پھر آہستہ سے بولی۔’’ بی بی جی ،مجھے پڑھنا سکھا دو۔ ‘‘
’’کیا ہوا انگوری ؟‘‘
’’مجھے نام لکھنا سکھا دو۔ ‘‘
’’کسی کو خط لکھوگی ؟‘‘
انگوری نے میرے سوال کا کوئی جواب نہیں دیا۔
پاپ نہیں لگے گا پڑھنے سے ؟‘‘ میں نے پھر پوچھا۔
انگوری نے اس کا بھی کوئی جواب نہیں دیا اور ایک ٹک آسمان کی طرف دیکھنے لگی۔
یہ دوپہر کی بات تھی ۔میں انگوری کو نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھا چھوڑ کر اندر آگئی ۔شام کو میں پھر کہیں جانے کے لئے باہر نکلی تو دیکھا ،وہ اب بھی وہیں نیم کے پیڑ کے نیچے بیٹھی ہوئی تھی۔بڑی سمٹی ہوئی سی ۔شاید اس لئے کہ شام کی سرد ہوا بدن کو کپکپا دینے والی تھی۔میری طرف انگوری کی پشت تھی۔اس لئے وہ مجھے نہ دیکھ سکی۔اس کے ہونٹوں پر ایک گیت تھا،با لکل سسکی کی طرح۔’’میری مندری میں لاگو نگینوا،ہو بیری کیسے کاٹوں جوبنوا ۔ ‘‘
انگوری نے میرے قدموں کی آ ہٹ پر پلٹ کر دیکھا اور پھر گیت کو اپنے ہونٹوں میں سمیٹ لیا۔
’’تو تو بہت اچھا گاتی ہے انگوری!‘‘
مجھے صاف نظر آ رہا تھا کہ انگوری نے اپنی آنکھوں میں جھلملاتے آنسو روک کر ان کی جگہ اپنے لبوں پرایک کانپتی ہوئی ہنسی رکھ دی ہے ۔
’’ مجھے گانا نہیں آتا ۔‘‘
’’آتا ہے۔ ‘‘
’’یہ تو...‘‘
’’ تیری سہیلی گاتی تھی ؟‘‘
’’اسی سے سناتھا۔‘‘
’’تو مجھے بھی سناؤ۔‘‘
’’ایسے ہی گنتی ہے سال کے مہینوں کی،چار مہینے سردی ہوتی ہے ،چار مہینے گرمی اور چار مہینے برسات...‘‘
’’ایسے نہیں ،گا کر سناؤ۔ ‘‘
انگوری نے گایا تو نہیں،لیکن بارہ مہینوں کو اس طرح گنادیا ،گویا یہ سارا حساب وہ اپنی انگلیوں پر کر رہی ہو۔
چار مہینے ،راجا،ٹھنڈی ہووت ہے
تھر تھر کانپے کرجوا
چار مہینے ،راجا ،گرمی ہووت ہے
تھر تھر کانپے پونوا
چار مہینے،راجا ،برکھا ہووت ہے
تھر تھر کانپے بدروا
’’انگوری...؟‘‘
انگوری بغیر پلکیں جھپکائے میرے چہرے کی جانب دیکھنے لگی۔میرا دل چاہا کہ اس کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر پو چھوں۔’ ’پگلی کہیں تو نے جنگلی بوٹی تو نہیں کھا لی ؟‘
میں نے ہا تھ اس کے کندھے پر رکھا بھی ،مگر یہ سوال پوچھنے کے بجائے میرے منہ سے نکلا ’’تونے کھانا بھی کھا یا ہے یا نہیں؟‘‘
’’کھانا ...؟‘‘ انگوری نے چہرہ اوپر اٹھا کر دیکھا۔اس کے کندھے پر رکھے ہوئے ہاتھ کے نیچے مجھے محسوس ہوا کہ اس کا سارا بدن کانپ رہا تھا۔ ابھی ابھی اس نے جو گیت سنایا تھا،برسات کے موسم میں کپکپا دینے والے بادلوں کا،گرمی کے موسم میںکپکپانے والی لو کااور سردی کے موسم میں کانپنے والے کلیجے کا،اس گیت کی ساری کپکپاہٹ انگوری کے بدن میں سمائی ہوئی تھی!
یہ مجھے معلوم تھا کہ انگوری اپنا کھانا خودہی پکاتی تھی۔پربھاتی مالکوں کی روٹی پکا تا تھااور خود بھی وہیں پر کھا تا تھا،اس لئے میں نے پھرکہا ۔ ’’تو نے آج کھانا پکایا ہے یا نہیں ؟‘‘
’’ابھی نہیں۔ ‘‘
’’صبح کچھ کھایا تھا؟چائے پی تھی ؟‘‘
’’چائے؟ آج تو دودھ ہی نہیں تھا۔ ‘‘
’’آج دودھ کیوں نہیں لیا ؟‘‘
’’وہ تو میں لیتی نہیں، وہ تو ...‘‘
’’تو روز چائے نہیں پیتی ؟‘‘
پیتی ہوں۔ ‘‘
پھر آج کیا ہوا؟‘‘
’’دودھ تو وہ رام تارا۔‘‘
رام تارا ہمارے محلے کا چوکیدار ہے،ساری رات پہرہ دیتا ہے۔صبح صبح نیند میں ہوتا ہے۔مجھے یاد آیا کہ جب انگوری نہیں آئی تھی،سویرے سویرے وہ ہمارے گھروں میں چائے کا گلا س مانگتا تھا ،کبھی کسی کے گھر کبھی کسی کے گھر اور چائے پی کر وہ کنوئیں کے پاس چارپائی ڈال کر سو جاتا تھا۔
...اور جب سے انگوری آئی تھی،وہ سویرے کسی گوالے سے دودھ لے آتا تھا،انگوری کے چولہے پر چائے کا پتیلا چڑھاتا تھا اور انگوری،پربھاتی اور رام تارا تینوں چولہے کے گرد بیٹھ کر چائے پیتے تھے ۔ساتھ ہی مجھے یاد آیا کہ رام تارا پچھلے تین دنوں سے چھٹی لے کر گاؤں گیا ہوا تھا۔
مجھے دکھی ہوئی سی ہنسی آگئی،میں نے کہا۔’’اور انگوری،تم نے تین دن سے چائے نہیں پی ؟‘‘
انگوری نے زبان سے کچھ نہ کہہ کر نفی میں سر ہلا دیا۔
’’کھانا بھی نہیں کھایا ؟‘‘
انگوری سے بولا نہیں گیا،ایسا لگ رہا تھا کہ اگر اس نے کچھ کھایا بھی تھا تو وہ نہ کھانے جیسا ہی تھا ۔
رام تارا کی تصویر میرے ذہن میں ابھر آئی۔مضبوط پھرتیلے ہاتھ پاؤں،اکہرا بدن،ہلکے ہلکے ہنستی ہوئی اور شرماتی ہوئی آنکھیں اور زبان کے پاس بات کرنے کا ایک خاص سلیقہ۔
’’انگوری !‘‘
’’جی !‘‘
’’کہیں تونے جنگلی بوٹی تو نہیں کھا لی ؟‘‘
انگوری کی آنکھوںسے آنسو بہہ نکلے۔ان آنسوؤں نے بہہ کر اس کے ہونٹوں کو بھگو دیا۔انگوری کے منہ سے نکلنے والے الفاظ بھی بھیگے ہوئے تھے، ’’مجھے قسم ہے ،جو میں نے کبھی اس کے ہاتھ سے مٹھائی کھا ئی ہو،پا ن بھی کبھی نہیں کھایا،صرف چائے ۔کیا پتہ اس نے چائے میں ہی...‘‘
اور آگے انگوری کی ساری آواز اس کے آنسوؤں میں ڈوب گئی۔

آخری سفر۔۔ اسما سلیم

آخری سفر

اسما سلیم

امرتا کے بارے میں خواب۔میں بہت دنوں سے دیکھ رہی تھی اور ایک بھی خواب ایسا نہیں تھاجو دل کے اندیشوں کو دور کر دیتا۔پچھلے دس دنوں میں تو دو بار ایسا ہوا کہ خواب دیکھ کرمیں گھبرا گئی ۔امروزکو فون کیا ۔انہوں نے ہمیشہ کی طرح بشاش لہجے میں کہا کہ سب خیریت ہے تو دل کو ذرا قرار آگیا ۔مگر یہ قرار عارضی تھا....31اکتوبرکو دوپہر تین۔ساڑھے تین کے آس پاس کا وقت تھا۔جب دفتر میں میری میز پر رکھے فون کی گھنٹی بج اٹھی ۔ دوسری طرف فرحت بتا رہے تھے کہ ابھی ابھی امروزکا فون آیا ہے ۔امرتا نہیں رہیں۔صبح گیارہ بجے میری امروز سے بات ہوئی تھی ۔تب تک تو ایسا کچھ نہیں تھا۔اگلے پندرہ منٹ میں امرتا کے گھر پہنچ گئی۔الکا نے دروازہ کھولا۔اوپر جانے کا اشارہ کرکے واپس اندر چلی گئی ۔میں امرتا کے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
امرتا بستر پر اسی طرح لیٹی ہوئی ہے۔جیسے ہمیشہ لیٹتی تھی۔مجھے اس کا آدھا چہرہ نظر آرہاہے۔آدھا دائیں جانب مڑا ہوا ہے ۔کہیں سے بھی یہ محسوس نہیں ہو رہا ۔کہ سانس کا وہ تار جس نے گذشتہ تین برسوں سے اس کا رشتہ حال سے جوڑ رکھا تھا ۔آج ٹوٹ گیا ہے ۔ڈاکٹر سرہانے کھڑی کچھ لکھ رہی ہے ۔اب کون سا نسخہ باقی ہے ۔مجھے خیال آیا۔اتنے میں اس نے اپنا پیڈ سامنے رکھ دیا۔وہ ڈیتھ سرٹیفکٹ تھا ۔اس نے امرتا کے جانے کی تصدیق کر دی تھی۔اس کے مطابق امرتا کا انتقال دو پہر لگ بھگ دو ڈھائی بجے سوتے میں ہوا تھا۔
موت کا سبب اس نے دل کا دورہ لکھا ہے ۔لیکن امرتا تو اتنی کمزور ہو چکی تھی ۔اتنی گھل چکی تھی۔کہ کسی بھی وقت یوں ہی جا سکتی تھی۔اس دوران امیا امرتا کے سرہانے موڑھے پر بیٹھ گئی۔وہ کہہ رہی ہے ۔ ’’اسماادھر آجا!امرتا جی نوں ویکھ لے ۔‘‘میں نے نفی میں گردن ہلا دی ۔میں اپنی یادوں میں اس کی آخری تصویر ایسے نہیں رکھوں گی۔ ۔ ۔ آنسو بہہ نکلے۔امروز کا ہاتھ میرے کندھے پر ہے ۔ڈاکٹر افسوس کے ساتھ کہہ رہی ہے ۔ان کے بہت شدید درد تھا ۔تڑپ کر موت کی آرزو کرنے لگتی تھیںاس حالت میں بھی میں نے کبھی ان کے اخلاق اور وضع داری میں کمی نہیں دیکھی۔آج کیسے چپ چاپ چلی گئیں۔
لمحہ بھر پہلے امروز کمرے سے باہر گئے تھے۔واپس آگئے ۔ان حالات میں بھی وہ اپنا فرض نہیں بھولتے۔ایک سفید لفافہ ڈاکٹر کی طرف بڑھا دیا۔اس کی آنکھوں اور آواز میں نمی اتر آئی۔نہیںآج نہیں!ڈاکٹر کمرے سے باہر نکلی تو الکا مجھ سے لپٹ گئی۔جب سے امرتا بستر سے لگی تھی ۔ امروز کی اور اس کی کتنی راتیں صبح ہوئیںاور کتنی صبحیںشاموں میں بدلیں۔یہ صرف وہی جانتے ہیں ۔کینڈی بھی پہنچ گئی۔اس کا چہرہ دھواں دھواں ہو رہا ہے ۔آج در حقیقت وہ یتیم ہو گئی ہے ۔وہ شاید ایک سال کی تھی ۔جب یتیم خانے میں اس نے امرتا کا پلو پکڑ لیا تھااور امرتا نے اسے گود لے لیا تھا ۔اس کے بعد امرتا کے یہاں نوراج کا جنم ہوا لیکن وہ گھر کی بڑی بیٹی ہی رہی ۔آج بھی ہے ۔ امرتا یا گھر کے کسی بھی فرد نے اس کے ساتھ کبھی کوئی تفریق نہیں کی۔
الکامجھ سے کاکا کا موبائل نمبر پوچھ رہی ہے ۔کاکا سدھ یوگی ہیں۔ امرتا کے دل میں ان کے لئے جو پیار اور بھکتی تھی ۔اس کا ذکر بہت جگہوں پر کیا ہے ۔میں نے جیسے ہی ان کو امرتاکے بارے میں بتایا۔انہوں نے فوراً کہا’بچے ۔لے جانے سے پہلے۔ان کے ماتھے پر دونوں ابرو ؤں کے بیچ میں۔مقام قلب پر اور دونوں ہتھیلیوں پر تلک کر دے۔پھر ماتھے پر ہاتھ رکھ کر تری شتی استوتر کا پاٹھ کردے ۔یہ ضروری ہے ۔ ۔ ۔ میرا دل تڑپ گیا۔یہ کیسی ذمہ داری مجھ پر ڈال دی۔میں تو اس کے چہرے کی طرف بھی نہیں دیکھ رہی کہ مجھے اپنے ذہن میںِہمیشہ اس کی روشن اور جگمگاتی تصویر چاہئے۔اس حالت میں.....
نوراج آخری رسوم کا سامان لے آئے ہیں ۔وہ ڈیڈ باڈی کو لے جانے ولی گاڑی بلانے کے لئے فون کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ ہماری طرف سے سب تیار ہے ۔آپ ابھی آجائیے۔(کسی کے انتظار میں رکنا تو تھا نہیں )میں نے امن(امرتا کا پوتا)سے تلک کے لئے کہا۔تو وہ سائیں کی دھونی لے آیا کہ دادی تو ہمارا تلک اسی سے کرتی تھیں۔میں ڈبیا لے کر امرتا کے سرہانے جا بیٹھی ۔چادر سرکائی۔پیشانی چمک رہی ہے۔یہ پیشانی جا نے کن کن منظروں کی گواہ ہے ۔اس پر دانشوری کی تینوں لکیریں اسی طرح سیدھی کھنچی ہوئی ہیں ۔بدن رخصت ہو گیا ۔مگر اس کی فکر ۔اس کا علم باقی ہے ۔
دونوں ابروؤں کے بیچ میں تلک کیا۔تو لگا کہ وہ مسکرائی ہے ۔دل بھیگنے لگا۔سکھی!آخری وقت میں قریب رہنے کا وعدہ اسی کے لئے لیا تھا۔ تمہارا سنگھار تو قدرت نے خود نور سے کیا ہے ۔ذرا اٹھ کر دیکھو اور بتاؤ۔کس سے ملاقات کی نشانی تمہارے ماتھے پر روشن ہے اور چہرہ اتنا چمک رہا ہے ۔تم تو بہت درد سہہ رہی تھیں۔اس کا ایک بھی نشان تمہارے چہرے پر کہیں نظر نہیں آرہا۔
ایک ہاتھ سے چادر کا کونا پکڑ کردوسرے ہاتھ سے اس کے دل کے مقام پر تلک کیا ۔کہتے ہیں ۔جس کا یہ چکر کھل جاتا ہے ۔وہ زمان و مکان۔مذہب ۔ذات۔پات ہر امتیاز سے بالا تر ہو جاتا ہے ۔اسی لئے اس کے دل میں ہر ایک کے لئے جگہ تھی۔دکھ چا ہے کسی کا ہو صدیوں کے فاصلے پر بھی۔وہ اسے محسوس کر سکتی تھی۔ڈاکٹروں سے کہتی تھی کہ اگر دل میں یہ درد نہ ہوتا تو شاعری نہ ہوتی ۔کاکا نے دونوں ہتھیلیوں پر بھی تلک کرنے کو کہا تھا ۔ اس کا دایاں ہاتھ سائڈمیں سیدھا رکھا ہے۔ہتھیلی تھوڑی سی کھلی ہوئی ۔بایاں ہاتھ سینے پر ہے ۔ذرا سا اٹھا کر وہاں بھی تلک کر دیا ۔
اس کا سنگھار پورا ہو چکا ۔رخصت کی گھڑی قریب آتی جا رہی ہے ۔اس سے پہلے ہی مجھے پاٹھ کرنے ہیں ۔میں نے ماتھے پر ہاتھ رکھا ۔ ایک دم سرد ہے ۔پا ٹھ شروع کیا ۔خدا جانے کیسی لہریں ہیں کہ میں پوری کی پوری مرتعش ہو اٹھی ہوں ۔میری آنکھیں بند ہیں ۔لگتا ہے آواز میری نہیں کسی اور کی ہے ۔میں اور امرتا چپ چاپ پاٹھ سن رہے ہیں ۔ایک ایسی کیفیت جس کا لفظوں میں اظہار ممکن نہیں ۔اسے چھونے پر پہلے پہل جو سرد سا احساس ہوا تھا۔وہ اب کہیںنہیں ۔میری سکھی ہمیشہ کی طرح میرے پاس بالکل میرے ساتھ ہے ۔میں آنکھیں کھولنا چاہتی ہوں ۔لیکن آنکھیں نہیں کھل رہیں۔کوئی میرا ہاتھ اس کے ماتھے سے ہٹا دیتا ہے ۔’ اسما یہ دیکھنے آئے ہیں ‘میں آنکھیں کھولتی ہوں ۔آنے والی ان پر نظر ڈال کرواپس جا رہی ہے ۔میں دوبارہ ماتھے پرہاتھ رکھ دیتی ہوں ۔ترنگوں سے بنی ہوئی امرتا پھر میرے پاس آ جاتی ہے (کیا کاکا نے اسی لئے پاٹھ کرنے کو کہا تھا؟)
کتنے سارے منظر میری آنکھوں کے سامنے بچھ گئے ہیں ۔کبھی ساحر کے گھر ’پرچھائیاں ‘ کی نیلامی کو لے کر اداس ہے ۔کبھی افغانستان پر امریکی حملے کو لے کرپریشان ۔وہاں کی گپھائیں تو اس کی سانسوں میں بستی تھیں۔جب میں اس کی نظموں کا ترجمہ کر رہی تھی۔تو نظم ’سنیہڑے ‘پڑھتے ہوئے اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی تھیں۔اگست 2002 میں امروزکا بخار طول پکڑ گیا تو وہ اپنی تکلیف بھول گئی ۔بار بار کہتی ۔میں امروز کے بنا نہیں رہ سکتی ۔اکثر کہتی مجھے امروز اور تجھے فرحت نہ ملتے تو ہم دونوںکی مکتی نہ ہوتی ۔
ہمیشہ لکھنے کے لئے اصرار کرتی ۔مگر میں سنتی ہی نہیں تھی ۔تب اس نے ایک دن غصے میں کہا جب میں مر جاؤں گی یہ تب لکھے گی ۔(امرتا !ذرا دیکھ۔میں لکھنے لگی ہوں ۔تو پھر بھی چلی گئی)اس کی شاعری پر مضمون لکھا۔اس میں نظم ’ نو سپنے ‘ کی وضاحت پڑھ کر بے حد روئی کہ اس طرح میری شاعری کو کسی نے سمجھا ہی نہیں ۔
اسے لے جانے کے لئے گاڑی آگئی۔سنگھار پورا ہو چکا تھا ۔ سفید گھونگھٹ منہ پر ڈال کر نیچے لایا گیا ۔ارتھی کنارے پر ہے ۔میں اور امروز اس تختے کو بیچ میں لا کر رکھ دیتے ہیں۔اسے لٹا دیا گیا۔گاڑی کے ساتھ جو لوگ آئے تھے ۔ان میں سے کسی نے کہا ۔رسی سے باندھ دو۔اجیت کور نے اس پر فوراً احتجاج کرتے ہوئے کہا۔یہ اتنی نازک ہے ۔رسی کیوں۔ چنری استعمال کر لیتے ہیں ۔شلپا (پوتی ) چنری لے آئی۔اب اس کی تیاری پوری ہو گئی۔ڈولا اٹھنے کا وقت آگیا۔سب کے سب سوگوار۔سب کی آنکھیں نم ۔
یہ سب ہیں بھی کون ۔گھر کے لوگ۔اجیت کور۔ان کی بیٹی اپرنا کور۔ ناگ منی کے پبلشر۔پڑوس میں رہنے والی ایک لڑکی رانی۔امیا اور میں ۔ کسی اخبار سے ایک رپورٹر اور فوٹوگرافر۔کوئی بھیڑ بھاڑ نہیں ۔امرتا کی وصیت تھی کہ اس کی موت پر کسی کو اطلاع نہ دی جائے۔حالانکہ جیسے بھی ہیں سب اس کے چاہنے والے ہی ہیں ۔سب کو افسوس رہے گا کہ شہر میں ہوتے ہوئے بھی اس کے آخری دیدار سے محروم رہے ۔لیکن شور شرابے اور ہنگامے سے اسے کوئی دل چسپی تھی ہی نہیں ۔مجھے 31اکتوبر کو ہو نے والی ایک اور موت یاد آگئی۔جو1984 میں ہوئی تھی۔امرتا اور وہ دونوں ایک دوسرے سے یکسر مختلف ۔بے حد انوکھی شخصیت کی مالک ۔اپنے اپنے انداز میں دونوں نے اپنے عہد کو متاثر کیااور عجیب بات یہ کہ دونوں ایک ہی تاریخ کو دنیا سے رخصت ہوئیں۔
یہ گھر ۔تخلیق کا سدھ پیٹھ!امرتا اور امروز نے مل کر بنایا تھا۔اس کے درودیوار نے کتنی تاریخی شخصیتوںکو دیکھا ہے ۔کتنی یادگار ملاقاتوں کے وہ گواہ ہیں۔کملیشور تو اسے سارے ایشیائی ادیبوں کا ٹھکانہ کہتے ہیں ۔اس گھر سے آج وہ ہمیشہ کے لئے چلی جائے گی ۔لوگوںکے ساتھ پیڑ پودوں کے بھی سر جھکے ہوئے ہیں ۔یہ سب اس نے خود لگائے تھے ۔خود ا ن کی دیکھ بھال کرتی تھی۔ان سے باتیں کرتی تھی۔جب سے وہ بیمار پڑی ۔پودوں کی ذمہ داری امروز نے سنبھال لی۔اب یہ بھی خاموش اسے آخری بار دیکھ رہے ہیں....
شام کے سائے گہرے ہو چلے ہیں۔دیوالی کی رونق اپنے شباب پر ہے ۔بم دھماکوں سے بھی اس پر کوئی اثر نہیںپڑا۔زندگی اپنی رفتار سے جاری ہے ۔کون آیا ۔کون چلاگیا ۔اس سے اس پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ جیسے آج نہیں پڑ رہا۔کسی کو پتہ بھی نہیں ۔اس وقت کون ان کے بیچ سے رخصت ہو رہا ہے ۔کچھ ہار پھول سب نے امرتا پر ڈالے اور اس کا ڈولا اس گھر سے اٹھ گیا۔
گھر والے اس کے سا تھ گاڑی میں بیٹھ گئے۔شمشان نزدیک ہی گرین پارک میں ہے ۔بس دس منٹ لگے ۔وہاں پہنچنے میں ۔بلکہ اس سے بھی کم ۔امرتا کی باڈی جہاں لے جا کر رکھی ہے ۔اس جگہ پر لکھا ہے ’وشرام استھل‘(مقام استراحت)۔چتا دور کہیں اندر تیار کی جا رہی ہے ۔نو راج سنسکار پورے کر رہے ہیں ۔امروزاور امن ساتھ میں ہیں۔تھوڑی دیر میں چتا تیار ہو گئی۔امرتا کو اس پر لٹا دیا گیا ۔ہار پھول الگ کر دئے گئے۔پنڈت چتا تیار کرنے والے کو بتا رہا ہے کہ پتلی لکڑیاں سرہانے لگاؤ۔بیچ بیچ میں چندن کی لکڑیاں ہیں۔
امرتا شعلوں میںسماتی جا رہی ہے ۔معلوم سے محسوس کی طرف۔ ظاہر سے غیب کی طرف۔محدود سے لا محدود کی طرف۔الکا بے اختیار چیخ چیخ کر رونے لگتی ہے۔سب اسے تسلی دے رہے ہیں ۔امروزبڑے ضبط اور حوصلے کے ساتھ با لکل خاموش کھڑے ہیں ۔میرے لئے برداشت کرنا مشکل ہے ۔امروز کا ہاتھ پکڑ کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہوں۔سامنے لوگ پہلے سے زیادہ نظر آرہے ہیں۔وہ موہن جیت ہیں ۔پنجابی اکادمی کے بھی کچھ لوگ ہیں ۔ڈاکٹر علی جاوید بھی ہیں۔اما شرما ۔منا اور کچھ دوسرے لوگ بھی ہیں ۔جنہیں میں نہیں جانتی۔
اما کہہ رہی ہے ۔وہ اتنے پیار سے تمہارا اور فرحت کا ذکر کرتی تھیں کہ مجھے رشک آتا تھا۔اب ملاقات دیکھو ۔کہاں ہو رہی ہے ۔میں اس کا ہاتھ تھام کر اسے صرف دیکھتی رہ جاتی ہوں۔ اس وقت کچھ بھی کہنا میرے بس میں نہیں ۔
رات گھر چکی ہے ۔لوگ آہستہ آہستہ واپس جا رہے ہیں ۔ موہن جیت نے امروز سے کچھ پوچھا ہے ۔امروزکی آواز میرے کانوں میں آرہی ہے ۔آخری رسم کر دی۔زندگی میں جب خوشیوں کو formalise کرنے میں یقین نہیں کیا تو اب دکھوں کو کیا formaliseکرنا۔وہ چلے گئے تو امروزکو میری فکر ہوئی۔تیرا گھر دور ہے ۔تجھے دیر ہو جا ئے گی۔
چتا ابھی جل رہی ہے ۔وہ مجھے اور امیا کو ساتھ لے کرپیدل ہی بس اسٹاپ تک چھوڑنے چل پڑے ہیں.... . OO

عمر بھر ایک ملاقات چلی آتی ہے

عمر بھر ایک ملاقات چلی آتی ہے

امروز

امرتا سے میری پہلی ملاقات 1956میں ہوئی تھی اور آج تک وہی ملاقات چلی آرہی ہے ۔ایسے لگتا ہی نہیں کہ اس سے ملنے سے پہلے میں exist بھی کرتا تھا۔
جب اس سے ملا تب ہی سے existکرنا شروع کیا۔تمام رشتوں کا مفہوم اسی ایک رشتے سے سمجھ میں آیا۔تب ہی امرتا نے بھی لکھا تھا: ’’...باپ ،بھائی،دوست اورخاوند/کسی لفظ
کا کوئی رشتہ نہیں /جب میں نے تمہیں دیکھا
تو یہ سارے لفظ با معنی ہو گئے ...‘‘
ایک نظم سناتا ہوں،ذرا لمبی ہے ،مگر سنو...
سامنے کئی راہیں بچھی تھیں
مگر کوئی راہ ایسی نہیںتھی
جس کے ساتھ میرا اپنا آپ چل سکے
سوچتا کوئی ہو منزل جیسی راہ...

وہ ملی تو گویا ایک امید ملی زندگی کی
یہ ملن چل پڑا...

ہم اکثر ملنے لگے
چپ چاپ کچھ کہتے ،کچھ سنتے
چلتے چلتے کبھی کبھی
ایک دوسرے کو دیکھ بھی لیتے
ایک دن چلتے ہوئے اس نے اپنے ہاتھ کی انگلیاں
میرے ہاتھ کی انگلیوں میں ملادیں
اور میری طرف اس طرح دیکھا
جیسے زندگی پہیلی بوجھنا چاہتی ہو
کہ بتا تیری انگلیاں کون سی ہیں
میں نے اس کی طرف دیکھا
اور نظر سے ہی جواب دیا
ساری انگلیاں تیری بھی ہیں
ساری انگلیاں میری بھی۔ ۔ ۔

ایک تاریخی عمارت کے باغیچے میں چلتے ہوئے
میرا ہاتھ پکڑ کر
کچھ یوں دیکھا
جیسے پوچھ رہی ہو
اس طرح میرے ساتھ
توکہاں تک چل سکتا ہے
میں نے کتنی ہی دیر
اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں دبائے رکھا
جیسے ہتھیلیوں کے راستے
زندگی سے کہہ رہا ہوں
جہاں تک تم سوچ سکو

کتنے ہی برس بیت گئے
اسی طرح چلتے ہوئے
ایک دوسرے کا ساتھ دیتے ہوئے
ساتھ لیتے ہوئے
اس راہ پر
ایک منزل جیسی راہ پر!
تب سے اب تک میں اکیلا نہیں ہوا ۔کبھی ایسا لگا ہی نہیںکہ کسی دوسرے کے ساتھ ہوں ۔اس کے ساتھ رہ کر اپنے ساتھ جیتا رہا۔ امرتا جب بستر سے لگی تو شروع شروع میں وہ کہتی تھی کہ تم بس میرے پاس بیٹھے رہو،میں اور زیادہ بیمار ہوجاؤں تب بھی مجھے اسپتال نہ لے جانا،میں تمہارے پاس اسی گھر میں مرنا چاہتی ہوں۔کسی اور کے ساتھ اس کا اس طرح کا تعلق تھا ہی نہیں،اپنے بیٹے کے ساتھ بھی نہیں۔سب اپنی اپنی سوچ کے مطابق اسے دیکھتے اور سمجھتے تھے۔اس طرح ضرورت تو پوری ہوتی ہے لیکن ایک تعلق کی تکمیل نہیں ہوتی۔لکھنے والوں نے بھی اس کے گھر پر ،اس کے ساتھ ملاقاتوں پر لکھا ہے،کہ ایسے رہتی ہے ،ایسے بولتی ہے،ایسے جیتی ہے ،اس کے فن پر اس کی تخلیقات پر کوئی نہیں لکھتا۔
تکلیف میں جب اس نے بولنا چھوڑ دیا ،بھولنے بھی لگی اور صرف دیکھتی تھی،تب ایسا محسوس ہوتا تھا،گویا آنکھوں سے بولتی ہے ،آنکھوں سے سنتی ہے ۔بدن میں شدید درد تھا،مگر آنکھیں اداس نہیں تھیں۔اس حالت میں اسے کوئی اور کھانا کھلاتا تو بہ مشکل اک چمچ کھا تی تھی۔ایک ساتھ بہت سا تو خیر اس نے کبھی نہیں کھایا،لیکن جب میں کھلاتا تو پوری کٹوری کھا لیتی۔در اصل اسے صرف کھانے سے دل چسپی نہیں تھی،ا س بہانے وہ کسی کی موجودگی چاہتی تھی۔اس نے کھانا پکانا ہی مجھ سے ملنے کے بعد شروع کیا تھا۔اس کے گھر میں تو کھانا نوکر پکاتا تھا۔
ایک بار ہم لوگ سوبھا سنگھ جی کے یہاں گئے۔وہ اور ان کی بیوی دونوں ہی کافی بزرگ تھے۔ہمیں اچھا نہیں لگا کہ ان سے پکوا کر کھائیں۔مجھے روٹی پکانی نہیں آتی تھی ، میں نے امرتا سے کہا ،تم پکا لو۔ان کے یہاں لکڑیاں جلاکر کھا نا پکایا جاتا تھا،لکڑیاں گیلی تھیں،اس نے کہا تم آگ کا خیال رکھنا،روٹی میں پکا لوں گی۔ساری زندگی میں آگ کا خیال رکھتا رہا۔یعنی سامان لانا اور انتظام کرنا میری ذمہ داری بنا اور روٹی پکانا اس کی۔
اس کے ساتھ بات کرنا شاعری کرنا تھا،اس کے ساتھ جینا شاعری کو جینا تھا،اس کے ساتھ گفتگو ہوتی تھی ...تو لکھنے کی ضرورت ہی نہیں پڑی،اس وقت شاعری مجسم تھی۔اب یہ ہے کہ...
کل تک
زندگی کے پاس ایک درخت تھا
زندہ درخت
پھولوں ،پھلوں اور خوشبوؤں سے بھرا ہوا
اور آج
زندگی کے پاس صرف ذکر ہے
مگر زندہ ذکر
اسی درخت کا
درخت
جو بیج بن گیا
اور بیج ہواؤں کے ساتھ مل کر اڑ گیا
پتہ نہیں
کس دھرتی کی تلاش میں !
میں مصور ہوں،تصویریں بناتا ہوں،تصویریں بنانے کے لئے،آرٹسٹ ہونے کے لئے مشہور ہونا ضروری نہیں۔ہر ایک کو شہرت مل بھی نہیں سکتی،لیکن اندر تخلیق کا جذبہ ہو تو آپ فن کار ضرور ہو سکتے ہیں ۔وان گاگ اور لیو ناردو داونچی، تخلیق کار دونوں ہی ہیں ،مگر شہرت تو ایک ہی کو ملی۔تان سین کو اکبر نے رکھ لیا ،ا س کا مطلب یہ تو نہیںکہ اس کے علاوہ کوئی اور موسیقار نہیں تھا،لیکن اکبر ہر ایک کو تو نہیں رکھ سکتا تھا۔تان سین کے گرو اس سے کہیں بڑے مو سیقار تھے،مگر وہ تو جھونپڑی میں رہتے تھے۔شہرت کا سوال میری خواہشوں میں ہے ہی نہیں۔میں اپنے ہنر کے ساتھ خوش ہوں۔میری فکر اور شعور کے افق پر جو رنگ کھلتے ہیں انہیں مصور کرنا مجھے اچھا لگتا ہے۔کسی اور کو بھی اس سے خوشی ملے تو ٹھیک ہے ،نہیں تو کوئی بات نہیں ،اس کے لئے میں خود کو کیوں بدلوں؟
اس لئے میں اب بھی ویسا ہی ہوں جیسا امرتا کے ساتھ تھا۔سارے کام اسی طرح کرتا ہوں جیسے اس کی موجودگی میں کرتا تھا۔ جب اس کے پھول جمنا میں بہانے گئے تو پھول بہاکر وہاں سے میں جلدی جلدی گھر واپس آیا ،یہ سوچ کر کہ امرتا انتظار کر رہی ہوگی،گھر آکر دیکھا تو اس کی باڈی تھی ہی نہیں۔اس سے میرے اندر کوئی فرق نہیں پڑا ۔وہاں تو وہ اسی طرح موجود ہے جیسے باڈی کے ساتھ تھی
بہتے پانیوں کے ساتھ ساتھ
چلتے ہوئے
وہ پوچھتی ہے
تو میرے ساتھ
کس جنم سے ہے
میں کہتا ہوں
جب سے جنم بنے ہیں
تب سے۔ ۔ ۔
اسما سلیم سے بات چیت پرمبنی

Sunday, June 7, 2009

خراجِ عقیدت: امرتا پریتم

خراجِ عقیدت: امرتا پریتم

1919سے 2005

ترتیب و پیش کش: اسما سلیم

پیدائش : 31 اگست،1919 گوجراں والا ،پاکستان

حقیقی نام : امرت کور

والدہ:راج بی بی ،جو امرتا کو ساڑھے دس برس کی چھوڑ کر سدھار گئیں

والد:نند سادھو سردار کرتار سنگھ ہتکاری، جن کا 1946میں انتقال ہوا

بہن: کوئی نہیں

بھائی:ایک، جس کا ڈیڑھ دو سال کی عمر میں ہی انتقال ہو گیا تھا

شادی:1936میں

شوہر:پریتم سنگھ کواترا

رفیق حیات:امروز ،جن کے لئے امرتا نے کبھی کہا تھا:’’.....باپ،بھائی، دوست اور خاوند کسی لفظ کا کوئی رشتہ نہیں ہے،لیکن جب تمہیں دیکھا تو یہ سارے لفظ بامعنی ہو گئے۔ ‘‘

اولاد:بیٹا،نوراج کواترہ ،پیدائش1947؛اس کی پیدائش سے پہلے ایک یتیم بچی کو گود لیا نام، کندلا

تعلیم:میٹرک،کالج گئیں ،لیکن ’’ ...لگا کہ اس سے بہتر تو خود لکھ پڑھ سکتی ہوں۔ ‘‘باقی سب علمی خود افروزی

کام:1948 سے1959تک آل انڈیا ریڈیو میں پنجابی اناؤنسر۰مئی 1966 اے2001 تک پنجابی رسالے ’ناگ منی‘ کی ادارت و اشاعت

اصل کام: شاعری، افسانہ نگاری،ناول نگاری،مختلف موضوعات پر بے شمار مضامین اور بے شمار تراجم

نمائندہ تخلیقات:سنیہڑے،کاغذ اور کینوس ،خاموشی سے پہلے ،ستاروں کے لفظ اور کرنوں کی زبان،کچے ریشم کی لڑکی ،اننچاس دن،رنگ کا پتہ،چک نمبر چھتیس ،ایک تھی سارا،من مرزا تن صاحباں ،لال دھاگے کا رشتہ،لفظوں کے سائے ،درویشوں کی مہندی ،حجرے کی مٹی ،چراغوں کی رات،وغیرہ ،سو سے زیادہ تصانیف

آپ بیتی :رسیدی ٹکٹ

پہلی کتاب: ٹھنڈیاں کرناں (پنجابی)1935میں امرتسر سے شائع ہوئی

آخری کتاب:’میں تمہیں پھر ملوں گی‘ نظموں کا مجموعہ

اعزازات:پدم وبھوشن ،پدم شری ،کے خطابات ،گیان پیٹھ ایوارڈ،ساہتیہ اکادمی ایوارڈ، تفویض کئے گئے۔ دلی یونیورسٹی،جبل پور یونی ورسٹی،شانتی نکیتن اور پنجاب یونیورسٹی نے ڈی لٹ کی ڈگری عطا کی۔ 1986سے 1992تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔ پنجابی زبان کی صدی شاعرہ کا ایوارڈپیش کیاگیا۔ ان کے علاوہ کئی بین الاقوامی اعزازات بھی دئے گئے۔ کئی تخلیقات پر فلمیں اور سیریل بن چکے ہیں۔ جن کی تعداد ابھی 9 ہے۔ ہندوستان میں کئی زبانوں کے علاوہ انگریزی ،روسی،فرانسیسی، چیک اور دیگر کئی یوروپی زبانوں میں تراجم

انتقال:31/اکتوبر2005نئی دلی

سجّاد ظہیر کا نظریۂ ادب

خطاب/سجّاد ظہیر کا نظریۂ ادب

فیض اٹھایا جدیدیت نے

انتظار حسین


ہمارے بزرگ خط لکھتے ہوئے بالعموم اس فقرے پر اسے تمام کرتے تھے۔ برخوردار اِس تھوڑے لکھے کو بہت سمجھ اور اپنی خیریت و حالات تفصیل سے لکھ۔

خطوں میں لکھا جانے والا یہ رسمی فقرہ اس وقت جب میں سجاد ظہیر کی تحریریں پڑھ رہا ہوں بہت بامعنی نظر آ رہا ہے۔ یہاں نقشہ یہ ہے کہ تھوڑا ناول افسانہ، تھوڑی شاعری، تھوڑی تنقید اور بہت سا سیاسی عمل، ایک آدرش کے لئے جو ایک نظرئیے کی دین ہے لمبی جدوجہد۔ مگر مجھے اس تھوڑے سے غرض ہے۔ اس تھوڑے میں بھی وہ جو زیادہ تھوڑا ہے یعنی افسانے اورناول۔ ہے تو یہ بہت تھوڑا مگر مجھے احساس ہو رہا ہے کہ یہ تھوڑا بھی بہت ہے۔ ادب میں تو لاکرتے ہیں ، گنا نہیں کرتے۔ مگر مدعی سست گواہ چست۔ میں ابھی اس احساس کے لئے استدلال تلاش کر رہا تھا کہ ادھر سجاد ظہیر بیچ میں بول پڑے ہیں ’ لندن کی ایک رات‘ کو پیش کرتے ہوئے انھوں نے پیش لفظ میں یہ سطریں لکھی ہیں۔

’’یورپ میں کئی برس طالب علم کی حیثیت سے رہ چکنے کے بعد اور تعلیم ختم کرنے کے بعد، چلتے وقت پیرس میں بیٹھ کر چند مخصوص جذباتی کشمکش سے متاثر ہو کر سو ڈیڑھ سو صفحے لکھ دینا اور بات ہے اور ہندوستان میں ڈھائی سال مزدوروں ، کسانوں کی انقلابی تحریک میں شریک ہو کر کروڑوں انسانوں کے ساتھ سانس لینا اور ان کے دل کی دھڑکن سننا دوسری چیز ہے۔ میں اس قسم کی کتاب اب نہیں لکھ سکتا اور نہ اس کا لکھنا ضروری سمجھتا ہوں۔ ‘‘

سن لیا آپ نے، وہی مضمون ہوا کہ بکری نے دودھ دیا... خیر جانے دیں اس بات کو۔ کوئی پروا نہیں۔ مدعی سست ہوا کرے خاکسار گواہ اب بھی چست ہے۔ لارنس کا کہا مجھے یاد آیا اور میں نے اسے گرہ میں باندھ لیا۔ اس نے کہہ رکھا ہے کہ کہانی کار کی بات مت سنو۔ اس کی کہانی جو کہتی ہے اس پر کان دھرو۔ کہانی کہنے والوں کا کیا اعتبار۔ لیوٹا سٹائی پر جب مذہب کا جنون سوار ہوا تو اس نے اپنے سارے شاہ کاروں کو فضولیات قرار دے دیا۔ کافکا پر تو کسی مذہب کسی نظرئیے کا جنون سوار نہیں ہوا تھا۔ اس نے اپنے جنون میں کچھ کہانیاں کچھ ناول لکھے۔ جنون کی جب دوسری رو آئی تو دوست کو وصیت کی کہ میرے مرنے کے بعد ان تحریروں کو آگ میں جھونک دینا۔

لیکن افسانہ ناول پڑھنے والوں نے ان دونوں کی بات سنی ان سنی کردی۔ میں نے بھی سجاد ظہیر کی یہ بات ایک کان سنی، دوسرے کان اڑادی۔ اصل میں معاملہ یہ ہے کہ اچھا شعر، اچھا افسانہ، اچھا ناول تخلیق ہونے کے بعد اپنے خالق کی گرفت سے آزاد ہو جاتا ہے۔ پھر وہ اپنا مفسر آپ ہوتا ہے۔ مصنف کی تعبیر و توجیہہ کو قبول نہیں کرتا۔

تو اس ناول اور ان چند کہانیوں کے حوالے سے جو ’انگارے‘ میں شامل ہیں میں اپنے اس احساس کا ذکر کر رہا تھا کہ یہ تحریریں تھوڑی ہوتے ہوئے بھی بہت نظر آ رہی تھیں۔ مگر کس طرح۔ یہ بات میری سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ سجاد ظہیر کے مداح نقادوں نے جو لکھا ہے اس سے بھی مجھے کوئی مدد نہیں ملی۔ آخر ایک افسانہ نگار ہی نے میرے مسئلہ کو حل کیا۔ عصمت چغتائی نے سجاد ظہیر کی شخصیت پر لکھتے ہوئے ان کے ساتھ اپنی اک گفتگو نقل کی ہے۔ یہ سجاد ظہیر کی کسرنفسی تھی یا دکھ بھرا احساس کہ ادب میں وہ کوئی بڑا کام انجام نہیں دے سکے۔ عصمت اس پر جھنجھلاتی ہیں اور کہتی ہیں ’’آپ نہیں جانتے۔ مگر آپ نے کچھ دروازے کھولے ہیں ، کچھ کھڑکیاں توڑی ہیں۔ راستے دکھائے ہیں۔ کیا یہ تخلیق نہیں ہے۔ ‘‘

لیجئے اب میری سمجھ میں بات آ گئی۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تک ہمارے ادب میں ، خاص طور پر ناول و افسانے میں کچھ راستے متعین ہو گئے تھے۔ پریم چند تک آتے آتے یہ طے کیا گیا کہ ناول کی کیا صورت ہوگی۔ اور افسانے کا کیا سانچہ ہوگا۔ مثلاً مختصر افسانے کے بارے میں یہ بات طے شدہ سمجھی جاتی تھی کہ اس کی ایک ابتدا ہوتی ہے اور ایک پلاٹ ہوتا ہے۔ پھر کہانی کا ارتقا۔ پھر کلائمکس آتا ہے، اور ایک سسپنس اور پھر ایسا جچا تلا انجام کہ قاری چونک اٹھے۔ افسانے کی جب یہ تعریف اتفاق رائے سے طے ہو گئی تو پھر دروازہ بند کر دیا گیا کہ کوئی اِدھر اُدھر نہ بھٹکے۔ اس تعریف سے جو تحریر تجاوز کرے گی وہ افسانہ نہیں ہوگی۔ کھڑکی بند دروازہ مقفل۔

جب یہ سب کچھ طے ہو چکا تو افسانوں کا ایک مجموعہ شائع ہوا۔ ’انگارے‘ کے نام سے۔ اس میں سجاد ظہیر کی پانچ کہانیاں شامل تھیں۔ یہ کہانیاں کس رنگ کی ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ کیجئے اس کہانی سے جس کا عنوان ہے ’نیند نہیں آتی۔

’’گرمی کی تکلیف تو بہ توبہ، ارے توبہ۔ مچھروں کے مارے ناک میں دم ہے۔ نیند حرام ہو گئی۔ پن پن۔ چٹ۔ وہ مارا۔ آخر یہ کم بخت ٹھیک کان کے پاس آکے کیوں بھنبھناتے ہیں۔ خدا کرے قیامت کے دن مچھر نہ ہوں۔ مگر کیا ٹھیک، کچھ ٹھیک نہیں۔ آخر مچھر اور کھٹمل اس دنیا میں خدا نے کس مصلحت سے پیدا کئے۔ معلوم نہیں پیغمبروں کو کھٹمل اور مچھر کاٹتے ہیں یا نہیں ...کچھ ٹھیک نہیں ، کچھ ٹھیک نہیں۔ آپ کا نام کیا ہے، میرا کیا نام ہے، کچھ ٹھیک نہیں۔ واہ واہ واہ مصلحت خداوندی، خداوندی اور رندی اور بھَنڈی۔ غلط، بھِن ڈی ہے۔ بھنڈی تھوڑا ہی ہے۔ میاں اکبر اتنا بھی حد سے نہ باہر نکل چلئے۔ اور کہا ہے۔ بحر رجز میں ڈال کے بھرِ رمل چلے۔ بحر رمل چلے۔ خوب۔ وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے۔ انگور کھٹے۔ آپ کو کھٹاس پسند ہے۔ پسند، پسند سے کیا ہوتا ہے؟چیز ہاتھ بھی تو لگے۔ مجھے گھوڑا گاڑی پسند ہے۔ مگر قریب پہنچا نہیں کہ وہ دُلتّی پڑتی ہے کہ سر پر پاؤں رکھ کر بھاگنا پڑتا ہے۔ اور مجھے کیا پسند ہے۔ میری جان۔ مگر تم تو میری جان سے زیادہ عزیز ہو.....چلو ہٹو بس رہنے بھی دو۔ تمہاری میٹھی میٹھی باتوں کا مزہ میں خوب چکھ چکی ہوں ....کیوں ، کیا ہوا۔ کیا.....‘‘

کیوں کیسی کہانی ہے۔ یہاں آپ کو کوئی ربط، کوئی تسلسل نظر آتا ہے۔ ساری کہانی اسی طرح چلتی ہے۔ نہ کوئی پلاٹ نہ کوئی کہانی۔ نہ کوئی کلائمکس نہ سسپنس۔ کہانی اسی طرح ختم ہوتی ہے۔

’’پیٹ میں آنتیں قل ہواﷲ پڑھ رہی ہیں اور آپ ہیں کہ آزادی کے چکر میں ہیں۔ نہ مجھے موت پسند ہے نہ آزادی۔ کوئی میرا پیٹ بھر دے۔ پن پن پن۔ چٹ، ہت ترے مچھر کی۔ نن ٹن ٹن۔ ٹن ٹن... ‘‘

یہ کتاب چھپتے ہی ضبط ہو گئی۔ لیکن اگر ضبط نہ ہوتی تو پھر بھی ہنگامہ کھڑا ہونا تھا۔ وہ ہنگامہ خود دنیائے ادب کے اندر کھڑا ہوتا۔ اعتراض کھڑا ہوتا کہ افسانے کے نام پر یہ کیسی بے ربط بے ہنگم تحریریں لکھی جا رہی ہیں۔ بات یہ ہے کہ اس وقت تک ہماری دنیائے ادب میں یہ خبر نہیں پہنچی تھی کہ ادھر مغربی دنیا میں جہاں سے ہم نے یہ اصناف مستعار لی تھیں ، ناول اور افسانے نے کیا کروٹ بدلی ہے۔ اور یہ شعور کی رو کیا چیز ہے اور آزاد تلازمہ کس چڑیا کا نام ہے۔ اور یہ جوائس اور ہرزست وغیرہ کون لوگ ہیں۔

البتہ ناول میں سجاد ظہیر اس انتہا پر نہیں گئے ہیں جہاں وہ اپنی کہانیوں میں نظر آتے ہیں۔ کہانی ’پھر یہ ہنگامہ‘ پھر اس سے بھی بڑھ کر ’نیند نہیں آتی‘ جہاں خارج کی سطح ہے کچھ ہوتا ہی نہیں۔ اندر ہی اندر کھچڑی پک رہی ہے۔ ابال اٹھ رہے ہیں۔ انمل بے جوڑ تصویریں۔ کبھی ایک خیال سے جڑ اہوا دوسرا خیال۔ کبھی لمبی زقند۔ ایک بات ایران کی تو دوسری توران کی۔ مگر ناول میں کڑی سے کڑی ملی نظر آئے گی۔ پھر بھی یہ ناول روایتی ناول سے یکسر مختلف ہے۔ یعنی آپ اسے ’امراؤ جان ادا‘ اور ’گؤ دان‘ کے تسلسل میں نہیں دیکھ سکتے۔ اس سانچہ سے انحراف ہی کی صورت میں دیکھ سکتے ہیں۔ بیشک یہاں خارج کی سطح پربھی کچھ ہوتا نظر آتا ہے۔ مگر خارج کی سطح سے زیادہ باطن کی سطح پر بہت کچھ ہو رہا ہے۔ اس لئے مکالمہ جتنا ہے اس سے بڑھ کر خود کلامی ہے:

دردنِ خانہ ہنگامے ہیں کیا کیا

چراغِ رہ گزر کو کیا خبر ہے

پچھلے ناول اور کہانی کو درونِ خانہ ہنگاموں کی کتنی خبر تھی۔ وہ تو اب آ کر پتہ چلا کہ اصل آدمی تو اپنے اندر ہوتا ہے۔ باہر وہ کتنا آتا ہے۔

تو لیجئے دروازہ ٹوٹ گیا، کھڑکی کھل گئی۔ کہانی پر کچھ نئے دروازے کھل گئے، نیا رستہ نکل آیا۔ مگر سجاد ظہیر نے تو پھر یہ رستہ ہی چھوڑ دیا۔ دروازہ توڑ کر اور طرف نکل گئے۔ اُس سے فیض دوسروں نے اٹھایا۔ بھلا کس نے۔ قاعدے سے تو اس سے ترقی پسند افسانے کو فیض یاب ہونا چاہئے تھا۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب میں یہ کہانیاں پڑھ رہا تھا تو اچانک مجھے کچھ کہانیاں یاد آئیں۔ حرام جادی، چائے کی پیالی، کالج سے گھر تک۔ مگر یہ تو محمد حسن عسکری کی کہانیاں ہیں جو ترقی پسند تحریک کے سخت مخالف تھے۔ عجب ہوا کہ سجاد ظہیر نے بیسویں صدی کے مغربی فکشن کے دریافت کردہ جس نئے طرز اظہار کا اردو افسانے میں ڈول ڈالا تھا وہ کرشن چندر کے افسانے کو چھوتا ہوا باقی ترقی پسند افسانے سے کنی کاٹ کر نکل گیا۔ پھر وہ رجعت پسندوں کے یہاں پر وان چڑھا۔ سب سے بڑھ کر محمد حسن عسکری کے یہاں۔

مگر ٹھہرئیے۔ بیچ میں یہ جو کرشن چندر کا حوالہ آگیا ہے اس کی بھی وضاحت ہو جانی چاہئے۔ اور یہاں مجھے عسکری صاحب ہی کے ایک بیان کا حوالہ دینا پڑے گا۔ ’دو فرلانگ لمبی سڑک‘ کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’یہ افسانہ اردو ادب میں ایٹم بم کی طرح آیا تھا.....‘‘آگے چل کر کہتے ہیں کہ ’’یہ افسانہ میری ذہنی زندگی کا ایک واقعہ ہے...ادب پڑھنے اور ادب لکھنے کی فوری تحریک مجھے کرشن چندر کے اس افسانے سے ہوئی۔ ہو سکتا ہے کہ اگر میں نے یہ افسانہ نہ پڑھا ہوتا تو میں کبھی مارسل پروست اور جوائس کو بھی نہ پڑھتا.....یہ افسانہ پڑھنے کے بعد افسانہ نگاری کی نہیں بلکہ تجربے کی ایسی ہئیت مجھے مل گئی کہ میں نے مہینے بھر کے اندر اپنا پہلا افسانہ لکھ لیا۔ ’کالج سے گھر تک‘۔

لیجئے میں تو عسکری صاحب کے افسانوں کا رشتہ سجاد ظہیر کی کہانی سے جوڑ رہا تھا لیکن انھوں نے اپنے فیض کا منبع کرشن چندر کی کہانی کو قرار دے ڈالا۔ خیر اس سے پہلے میں ایک بات کرشن چندر کے متعلق اور کہتا چلوں۔ ہندوستان میں بعض نقاد کچھ اس طرح سوچتے نظر آتے ہیں کہ منٹو اور بیدی کی عظمت اسی طرح قائم رہ سکتی ہے کہ پہلے کرشن چندر کے افسانے کو خاک چٹادی جائے۔ بہرحال کرشن سے ایک امتیاز تو نہیں چھینا جا سکتا۔ امتیاز ایسا ہے یعنی بیسویں صدی کے انقلاب انگیز طرز اظہار کو اپنانے اور اردو میں متعارف کرانے کا امتیاز جس میں اس کا کوئی ہم سر افسانہ نگار اس کا شریک اور حریف نہیں ہے۔ باقی یہ نقاد اپنے طوطا مینا اڑاتے رہیں۔

اب میں اپنی پچھلی بات پر آتا ہوں۔ میں حیران ہوں کہ کیا عسکری صاحب پہلے دھماکہ سے بے خبر تھے۔ وہ دھماکہ جو سجاد ظہیرنے کیا تھا۔ شاید صورت یہ تھی کہ وہ پہلا دھماکہ تو ’انگارے ‘کے دھماکہ کے ساتھ غتر بوت ہو کر نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ سجاد ظہیر نے بھی اپنے اس کام کو فراموش کر دیا۔ جو افسانہ پڑھا ہی نہیں گیا۔ آگے چل کر جب کرشن چندر نے ’دو فرلانگ لمبی سڑک‘ لکھا تو دھماکہ کی گونج دور دور تک گئی اور اب اردو افسانے میں واقعی ایک انقلاب آیا۔ مگر پھر سجاد ظہیر اور کرشن چندر سے آگے جا کر اس انقلاب کی خبر ہمیں عسکری صاحب کی کہانیوں سے ملی۔ پتہ چلا کہ ادب میں کبھی کبھی یوں بھی ہوتا ہے کہ نظریاتی اختلافات ایک طرف دھرے رہ جاتے ہیں اور لکھنے والے کسی اور سطح سے، کہہ لیجئے کہ تخلیقی سطح سے ملتے اور ایک دوسرے سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ اور یہ بھی غور طلب بات ہے کہ سجاد ظہیر نے افسانے میں اپنی ترقی پسند فکر کے اظہار کے لئے اس سماجی حقیقت نگاری سے کنارہ کر کے جس نے گورکی کے افسانہ و ناول کو رونق بخشی تھی، جوائسین ا سکول کے دریافت کردہ طرزِ اظہار سے استفادہ کیا۔ اسی روِش کو انگارے کے دوسرے اہم افسانہ نگار پروفیسر احمد علی نے بھی اپنایا۔ بلکہ انھوں نے تو بطور خاص کافکا سے فیض حاصل کرنے کی ٹھانی۔ یہ بھی شاید دروازہ توڑنے اور کھڑکی کھولنے کا عمل تھا۔ جتانا یہ مقصود تھا کہ ترقی پسند فکر اپنے اظہار کے لئے کسی ایک مخصوص طرز اظہار کی محتاج نہیں ہے۔ کوئی طرز اظہار بنفسہٖ نہ تو ترقی پسند ہوتا ہے نہ رجعت پسند ہوتا ہے۔ یہ تو لکھنے والے کو اپنی افتاد طبع اور اپنے تجربے کے حساب سے جانچنا چاہئے کہ اظہار کی کو ن سی طرز کون سی تکنیک اسے زیادہ راس آئے گی۔

سجاد ظہیر اپنے افسانے کو ادھورا چھوڑ کر پارٹی کے کام میں مستغرق ہو گئے۔ مگر دروازہ توڑنے کے شوق نے پھر بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا۔ مجھے یاد آر ہا ہے کہ اب سے اُدھر جب لاہور اور کراچی میں چند نئے شاعروں اور شاعرات نے نثری نظم کا علم بلند کیا تھا تو کتنے سینیر نقادوں اور شاعروں نے جو نظم آزاد کو قبول کر چکے تھے اسے شاعری ماننے ہی سے انکار کر دیا۔ اور ادھر اس گروپ میں مختلف شاعر یہ دعوے کر رہے تھے کہ نثری نظم کے موجد ہم ہیں۔ کسی باخبر نے اطلاع دی کہ بابا ہندوستان میں ایک سینیر ادیب پہلے ہی نثری نظمیں لکھ چکا ہے اور اس کا مجموعہ ’پگھلا نیلم‘ کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ تو لیجئے سجاد ظہیر نے شاعری کی طرف رخ کیا تو یہاں بھی ایک دروازہ توڑ ڈالا۔ بتایا کہ شعری اظہار میں نظمِ آزاد حرف آخر نہیں ہے۔ ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں !

میں اس بحث میں نہیں پڑوں گا کہ جو فکشن انھوں نے لکھا اس کی ادبی قدر و قیمت کتنی ہے۔ آیا ان کی صرف تاریخی اہمیت ہے یا اس سے بڑھ کر تخلیقی حساب سے بھی رتبہ بہت بلند ہے۔ میں نے عصمت چغتائی سے اشارہ لے کر صرف یہ جتانے کی کوشش کی ہے کہ اس بزرگ نے ہمارے ادب میں چند دروازے توڑے ہیں ، چند کھڑکیاں کھولی ہیں۔ اگر وہ اپنے دریافت کردہ نئے رستے پر زیادہ نہیں چلے تو یہ ان کی مرضی۔ مگر شاید ادب کے واسطے سے ان کے حصے میں صرف دروازے توڑنے ہی کی سعادت آئی تھی۔ اور یہ کوئی چھوٹی سعادت نہیں ہے۔ ہمارے بیچ کتنے ایسے ادیب ہیں جن کے بارے میں ہم یہ کہہ سکیں کہ انھوں نے کسی نئے طرز کی داغ بیل ڈالی یا کسی نئی روایت کی بنیاد رکھی۔ ہاں انھوں نے اپنا ہی کھڑا کیا ہوا جو ایک دروازہ توڑا اسے تو میں بھول ہی چلا تھا۔ انھوں نے تھوڑی تنقید بھی تو لکھی ہے۔ ان میں ایک بہت اہم تحریر وہ ہے جو ’ذکرِ حافظ‘ کے عنوان سے کتابی شکل میں شائع ہوئی ہے۔ اس کا محرک ہے وہ فضول بیان جو ظ۔ انصاری نے غزل کی صنف کے خلاف اور حافظ کی شاعری کی مذمت میں جاری کیا تھا۔

یہ کتاب پڑھتے ہوئے مجھے ظ۔ انصاری پر بہت ترس آیا۔ وہ بیچارے نا کردہ گناہ مارے گئے۔ انھوں نے تو وہی باتیں حافظ کے حوالے سے دہرائی تھیں جو نقاد غزل اور کلاسیلی غزل گویوں کے متعلق کہتے چلے آرہے تھے۔

ظ.انصاری نے حافظ پر جو محاکمہ کیا تھا اس پر سجاد ظہیر نے اپنے اس رفیق کی سخت گرفت کی۔ کہا کہ حافظ کی شاعری پر انغعالی تصور، فراریت، داخلیت اور لذت پرستی کا الزام لگا کر اپنے تہذیبی ورثے کے اس انمول رتن کو کوڑے کے ڈھیر پر پھینک دینا کوئی عقل مندی کی بات نہیں ہے۔ پھر سمجھایا کہ عزیز ،شاعری کو اس طرح سے نہیں دیکھا پرکھا کرتے۔ ’’حافظ کی ساری شاعری سے اس کا پیغام نچوڑ لینے کا جو طریقہ اختیار کیا گیا ہے وہ غیر ادبی اور غیر علمی ہے۔ ‘‘دوسرے یہ کہ ’’مادی سماجی حالات اور فنی تخلیق میں جو رشتہ ہے اُسے غلط اور میکانکی طریقے سے سمجھا گیا ہے‘‘۔

مگر صاحبو! انصاف شرط ہے۔ ظ.انصاری نے اپنے مغز سے اتار کر تو کوئی بات نہیں کی تھی۔ ترقی پسند نقاد جو کہتے چلے آئے تھے وہی سبق انھوں نے حافظ کے حوالے سے دہرادیا۔ اگر شاعری کو اس طرح جانچنے کا طریقہ غلط ہے تو اکیلے ظ۔ انصاری ہی کیوں پکڑے جاتیں۔ مگر شاید سجاد ظہیر کا مقصود بھی یہی ہو کہ میں ظ۔ انصاری سے مخاطب ہوں مگر پڑوسن تو بھی سنتی رہیو۔ مطلب یہ کہ دوسرے ترقی پسند نقاد بھی یہ بات کان کھول کر سن لیں۔

تو لیجئے سجاد ظہیر نے یہاں بھی ایک دروازہ توڑ ڈالا۔ اور یہ تو وہ دروازہ تھا جو خود ان کی تحریک نے تعمیر کیا تھا۔ مگر مجھے افسوس بھی ہوا۔ سجاد ظہیر نے ذرا دیر کر دی۔ کہیں تحریک کی ابتدا ہی میں ترقی پسند تنقید کو یہ ہدایت مل جاتی تو اس کے حق میں یہ کتنا اچھا ہوتا مگر اس وقت تو دریا چڑھا ہوا تھا۔ کیا عجب تھا کہ جوشِ انقلاب میں کوئی جیالہ یہ اعلان کر دیتا کہ لو، بنّے بھائی بھی رجعت پسند ہو گئے۔ oo

نئی دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں ’ساہتیہ اکادمی‘ کی جانب سے ’سجاد ظہیر صدی‘ کی تقریبات کے سلسلے میں منعقدہ سیمینار میں پڑھا گیا